Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/30/19

Logo Designing....... on cheep rates



Share:

10/28/19

جلوہ خدا کا جلوۂِ خیر البشر میں ہے




جلوہ خدا کا جلوۂِ خیر البشر میں ہے
جو آئینے میں ہے وہی   آئینہ گر میں ہے

سلطان دو جہاں کا مدینہ نظر میں ہے
اک کیف اک سرور سا قلب و جگر میں ہے

اس در کی حاضری کو زمانہ گزر گیا
وہ منظرِ حسیں مگر اب بھی نظر میں ہے

کیسے کہوں حضور کو میری خبر نہیں
ہر ذرہ کائنات کا ان کی نظر میں ہے

سمجھا نہ کوئی رفعتِ معراجِ مصفطےﷺ
انسان حیرتوں کے ابھی تک بھنور میں ہے

صدقہ نبی کی آل کا اپنے نبی سے مانگ
نعمت ہر ایک دامنِ خیر البشر میں ہے

عرشِ خدا سے کم  وہ نیازی نہیں ہے دل
مسکن اگر حضور کا دل کے نگر میں ہے

دیکھے کوئی حضور کی بندہ نوازیاں
مجھ سا حقیر مجھ سا کمینہ نظر میں

Share:

10/25/19

تاریخ میلاد النبی ﷺ پر بحث

تاریخ میلاد النبی ﷺ پر بحث:
دین میں نقل اور روایت اصل اور اساس ہے عقلی استدلالات سائنسی اور فنی حسا بات سے ہم استفادہ تو کرسکتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر نقل اور روایت کی ساری اساسات  کو رد نہیں کر سکتے۔اسی روش کی بنا پر ماضی قریب اور عہد حاضر کے متجددین نےجو اہل مغرب سے ہمیشہ مرعوب رہتے ہیں اور مستشرقین کے پراپیگنڈے سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔معجزات انبیائے کرام کا انکار  کیا واقعہ اصحاب فیل، معجزہ شق القمر ،معجزہ معراج النبی اور سابق انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات کی جو روایات امت میں تعامل و  توارث کے ساتھ مسلّمہ چلی آ رہی ہیں ان کی عقلی تاویلیں شروع کر دیں۔ 

اس طرح ختم المرسلین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا یوم ولادت باسعادت پیر 12ربیع الاول کو ہونا صدیوں سے امت میں مسلم ہے۔ اس کے لئے ازسرنو بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کرنا درست نہیں ہے پھر یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں ہے کہ کسی نے اس معین دین کا انکار کردیا تو شرع قباحت لازم آئے گی یا اس کی بنا پر کوئی رائے قائم کردیں تو اس کے سبب فساد عقیدہ لازم آجائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے یوم ولادت کا متبرک اور مقدس ہونا مسلم ہونا چاہیے۔ تعین پر اعتقاد و یقین ضروریات شرعیہ میں شامل نہیں ہے۔جدید سائنسی علوم کے سہارے سے رائے قائم کرنے والے خود بھی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہیں۔ اگر ہم نقلی روایات کو چھوڑ کر ان کے افکار کو مان لیں تو بھی اختلاف قائم رہے گا۔ پس اصل مبحث یہ نہیں کہ تاریخ کون سی تھی اصل مرکز عقیدت یوم میلاد النبی ﷺ کی تقدیس ، تعظیم اور حرمت ہے اور  اہل عقیدت و محبت کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہمارے عہد حاضر کے علماء میں سے جسٹس علامہ پیر کرم شاہ الازہری نے اپنی مایہ ناز تصنیف ضیاءالنبی میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اہل ذوق اس کی جلد دوم صفحہ 33 تعداد 39 پر تفصیل سے ملاحظہ فرمالیں ۔ہمارے ایک دوسرے دینی سکالر پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی تصنیف میلاد النبی میں اس پر بحث کی ہے ہم ان دونوں اہل علم کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ چند دلائل کا ذکر کر رہے ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ کائنات کی تمام علماء کا اتفاق ہے ربیع الاول کا بابرکت مہینہ تھا اور متقدمین اور متاخرین کا اجماع اسی پر ہے کہ ربیع الاول ی بارہ تاریخ تھی اور دن دو شنبہ کا تھا ۔
بقول قاضی سلمان منصور پوری مصنف ‘‘ رحمۃ اللعالمین’ یہ ۲۲ اپریل ۵۷۱ عیسوی اور ہندی مہینوں کے حساب سے یکم جیٹھ ۶۲۸ بکرمی بنتی ہے۔
معروف سکالر سیرت نگار علامہ محمد رضا مصری مصنف ‘‘ محمد رسول اللہ ﷺ ’’ اور محمد صادق ابراہیم عرجون کی تحقیق کے مطابق سن عیسوی کے حساب سے ۲۰ اگست ۵۷۰۰ عیسوی بنتی ہے۔ علم الہیئت کے ماہر محمود پاشا فلکی مصری اور بعض دیگر متاخرین کی تحقیق ۹ ربیع الاول کے حق میں بھی ہے مگر عالم اسلام میں قدیم زمانے سے اجماع ۱۲ ربیع الاول پر ہی چلا آ رہا ہے۔ اس لیے قول ِ مختار کا درجہ اسی کو حاصل ہے۔ اس حوالے سے ہم بعض ائمہ کی تحقیق  بیان کرتے ہیں۔
امام ابن اسحاق متوفی ۱۵۱ ہجری لکھتے ہیں۔ ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ بروز ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں ہوئی (الوفا ص ۸۸)  مشہور سیرت نگار ابن ہشام متوفی ۲۱۳ ہجری لکھتے ہیں۔ ترجمہ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن  ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے۔( سیرت النبویہ جلد ۱ ، ص ۱۵۸، مطبوعہ : دار الحیل، بیروت)
معروف مفسر و مورخ امام ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ ہجری لکھتے ہیں: رسول کریم ﷺ کی ولادت مبارکہ بروز پیر ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں ہوئی۔( تاریخ الاممم و الملوک المعروف تاریخِ طبری جلد ۲، ص ۱۲۵)۔
 علامہ ابن خلدون متوفی ۸۰۸ ہجری جو علم تاریخ اور فلسفی تاریخ کے امام مانے جاتے ہیں ، بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی ہیں ، لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت عام الفیل کو ماہِ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی ، نوشیرواں کی حکمرانی کا چالیسواں سل تھا۔ ( اتاریخ ابن خلدون ، جلد ۲ ، ص ۷۱۰، مطبوعہ بیروت)
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی متوفی ۴۲۹ ہجری جو علم سیاست اسلامیہ کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی کتاب ‘‘ الاحکام السلطانیہ’’ علم سیاست کے طلباء کے لیے بہترین ماخذ ہے۔ اعلام النبوۃ میں تحریر فرماتےہیں: ترجمہ۔ واقعہ اصحاب الفیل کے پچاس روز بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد حضور ﷺ بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ (اعلام النبوۃ ۱۹۲)۔
امام الحافظ ابو الفتح محمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن یحی بن سید الناس الشافعی الاندلسی متوفی ۷۳۴ ہجری لکھتے ہیں: ہمارے آقا ﷺ اور ہمارے نبی محمد ﷺ پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے بعض نے کہا ہے کہ واقعہ فیل کے پچاس روز بعد حضور ﷺ کی ولادت ہوئی۔ (عیون الاثر ، جلد ۱ ، ص ۲۶، مطبوعہ : دار المعرفہ، بیروت)
دور حاضر کے سیرت نگار محمد صادق ابراہیم عرجون ، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیہ ‘‘ اصول الدین’’ کے مدیر رہے ہیں اپنی تصنیف ‘‘ محمد رسول اللہ ’ میں لکھتے ہیں ترجمہ: بکثرت طرق روایت سے یہ بات ثابت ہو چکی ہ ے کہ حضور نبی کریم ﷺ بروز دو شنبہ (پیر) بارہ ربیع الاول عام الفیل ، کسری نوشیرواں کے عہد حکومت میں تولد ہوئے اور ایسے علماء  جو شمسی اور قمری تاریخوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں نے کہا ہے کہ اس دن شمسی تاریخ ۲۰ اگست ۵۷۰ بنتی ہے۔ ( محمد رسول اللہ ، جلد ۱ ، ص ۱۰۲، مطبوعہ دار القلم ، دمشق)
اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے پیر کرم شاہ الازہری ضیاء النبی میں لکھتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہی تاریخ روایت کی ہے چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں ترجمہ: حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھما  بیان کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ عام الفیل روز دو شنبہ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اسی روز آپ کی بعثت ہوئی اسی روز آپ کو معراج عطا ہوئی ، اسی روز آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اور آپ ﷺ کے وصال مبارک کا دن بھی یہی ہے۔ جمہور امت کے نزدیک یہی تاریخ مشہورہے۔
اس کے پہلے راوی ابو بکر بن ابی شیبہ ہیں ان کے بارے میں ابو زرعہ رازی متوفی ۲۶۴ ہجری کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن ابی شیبہ سے بڑھ کر حافظ حدیث نہیں دیکھا۔ محدث ابن حبان فرماتے ہیں ابو بکر عظیم حافظ حدیث تھے۔ دوسرے راوی عفان ہیں ان کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ عفان ایک بلند پائہ امام ، ثقہ اور صاحب ِ ضبط و اتقان ہیں  تیسرے راوی سعید بن میناء ہیں ان کا شمار بھی ثقہ راویوں میں ہوتا ہے۔ یہ صحیح الاسناد روایت  دو جلیل القدر صحابہ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضر عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنھما سے مروی ہے۔
محمود پاشا نے اگر علم فلکیات کی مدد سے کچھ تحقیقات کی بھی ہیں تو صحابہ کرام ، تابعین اور دیگر قدماء کی روایات کو جھٹلانے کے لیے ان پر انحصار کسی طرح بھی مناسب نہیں ۔ کیوں کہ سائنسی علوم کی طرح فلکیات کی بھی کوئی بات قطعی نہیں ہوتی ۔ محمود پاشا سے قبل بھی کچھ لوگوں نے علم نجوم کے حسابات سے یوم ولادت معلوم کرنے کی کوشش کی ، علامہ قسطلانی لکھتے : اہل زیچ ( جنتریوں کا حساب نکالنے والے) کا اس قول پر اجماع ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو پیر کا دن تھا اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص بھی علم نجوم اور ریاضی کے ذریعے حساب لگا کر تاریخ نکالے گا مختلف ہو گی۔ پس ہمیں قدیم سیرت نگاروں ، محدثین ، مفسرین ، تابعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بات ماننا پڑے گی۔

Share:

اسلام میں راستے کے آداب اور راستے کے حقوق || راستے کا حق || راستوں میں کھڑے ہونا یا بیٹھنا || راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا


راستے کو اس کا حق دو اور تکلیف دہ چیز دور کرو:
            گلی محلے اور چوکوں میں کھڑے ہونے اور گپ شپ کرنے کا  رواج کافی پرانا ہے لوگ رات گئے تک اور سارا سارا دن گلی کوچوں میں کھڑے ہو کر باتوں میں مصروف رہتے ہیں ۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کو ضرور پڑھنا چاہیے اور عمل کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیوں کہ ہماری نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ سیرت رسول عربی ﷺ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے گلی کوچوں میں کھڑے ہونے سے منع فرمایا مگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کے استفسار پر آپ ﷺ نے تعلیم فرمائی احادیث مبارکہ پر غور کریں اور عمل کی کوشش کریں۔۔

1: عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: کَانَتْ شَجَرَۃٌ فِی طَرِیْقِ النَّاسِ تُؤْذِیْ النَّاسَ، فَاَتَاھَا رَجُلٌ فَعَزَلَھَا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَلَقَدْ رَاَیْتُہُ یَتَقَلَّبُ فِی ظِلِّھَا فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: 9145)

  سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: لوگوں کے راستے میں ایک درخت تھا، اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، پس ایک آدمی آیا اور اس کو لوگوں کی گزرگاہ سے ہٹا دیا، پھر انھوں نے کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: پس تحقیق میں نے اس بندے کو دیکھا کہ وہ جنت میں اس درخت کے سائے میں حسب ِ منشا زندگی گزار رہا تھا۔

2: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏   نَزَعَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ غُصْنَ شَوْكٍ عَنِ الطَّرِيقِ،‏‏‏‏ إِمَّا كَانَ فِي شَجَرَةٍ فَقَطَعَهُ وَأَلْقَاهُ،‏‏‏‏ وَإِمَّا كَانَ مَوْضُوعًا فَأَمَاطَهُ،‏‏‏‏ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا،‏‏‏‏ فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ  .ابو داود 5245

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر  ( جھکی ہوئی )  تھی  ( آنے جانے والوں کے سروں سے ٹکراتی تھی )  اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا، یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کر دیا ۔

3: ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏   اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ:‏‏‏‏ الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، ‏‏‏‏‏‏وَالظِّلِّ  .ابو داود 26

 حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لعنت کی تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں، اور سائے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے ۔

4: ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ غَزَوْتُ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ كَذَا وَكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَضَيَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ وَقَطَعُوا الطَّرِيقَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي فِي النَّاسِ  أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ  .ابو داود2629

 

 حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے مسدود کر دیئے ۱؎ تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کر دیں، یا راستہ مسدود کر دیا تو اس کا جہاد نہیں ہے۔

5: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ قَالُوا وَمَا حَقُّهُ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذَى وَرَدُّ السَّلَامِ وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ مسلم 5563

 حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ، انھوں نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سے روایت کی ،  کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :  راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔    لوگوں نے عرض کی :  اللہ کے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے لیے اپنی مجلسوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہیں وہیں ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں  ۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا  :   اگر تم بیٹھے بغیر نہیں رہ سکتے تو راستے کا  ( جہاں مجلس ہے )  حق ادا کرو ۔    لوگوں نے پو چھا  :  راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فر ما یا :    نگا ہیں جھکا کر رکھنا  ( چلنے والوں کے لیے  )  تکلیف کا سبب بننے والی چیزوں کو ہٹانا سلام کا جواب دینا  ، اچھی بات کا  حکم دینا اور برا ئی سے روکنا ۔  

 

6: عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ»مسلم 1233

 حضرت ابو ذر  ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌  نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی  ،  آپ نے فرمایا  :   میرے سامنے میری امت کے اچھے  اور برے اعمال پیش کیے گئے  ،  میں نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف  دہ چیز ہٹانے کو دیکھا  ،  اس کے برے اعمال میں بلغم کو پا یا جو مسجد میں ہوتا ہے اور اسے دفن نہیں کیا جاتا  ۔

راستے میں کھڑے ہونے یا بیٹھنے کے آداب:
1.    ایک طرف ہو کر کھڑے ہونا یا بیٹھنا
2.    گزرنے والے کو سلام کرنا ، سلا م کا جواب دینا۔
3.    تکلیف دہ چیز کو دور کرنا۔
4.    نیکی کا حکم دینا ، برائی سے روکنا۔
5.    شور شرابا یا وہ کام جس سے لوگوں  کو تکلیف ہو،  نہ کرنا۔
6.    نگاہیں نیچی رکھنا۔

Share:

10/24/19

غزل کی تعریف اور ارتقاء

غزل کا ارتقاء:

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب فارسی میں قصیدے سے الگ ہو کر غزل کے روپ میں جلوہ نما ہوا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غزل پہلے عربی زبان سے فارسی میں آئی اس کے بعد فارسی سے اردو تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے عہد میں ہی کر لیا۔پھر اردو میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جو غمِ جاناں ، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایرانی صنف ہے جو فارسی کے ساتھ ہندوستان میں رونما ہوئی اور اب اردو میں مقبول ہے۔

غزل کی تعریف:

غزل ایک مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔ اس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ۔ یا پھرعورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔قیس رازی نے العجم میں غزل کے سلسلے میں یہ نشاندہی کی ہے کہ لفظ غزل دراصل غزال سے ہے۔ ڈاکٹر سٹن گاس نے کہا ہے کہ غزل سے مراد سوت کاتنے کے ہیں۔

غزل کی تشریح و توضیح:

ہیت کے لحاظ سے غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہو۔ اس کا ہر شعر ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ ردیف نہ ہونے کی صورت میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع جبکہ آخری شعر جس میں تخلص اسرعمال ہوتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مستقل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ اس کے ہر شعر میں الگ ہی مفہوم باندھا جاتا ہے۔بعض اوقات ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنیٰ ہو سکتی ہے۔ غزل ایک بحر میں لکھی جاتی ہے ۔

غزل میں تین اہم کردار خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس میں عاشق، محبوب اور رقیب شامل ہیں۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ پھر اس کے بعد اپنے محبوب کے ظلم و ستم پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اور بعد ازاں اپنے رقیب کو بھی برا بھلا کہ جاتا ہے۔ شاعر یہ تمام صورتِ حال ایک خاص ترتیب سے بیان کرتا ہے۔جیسے ایک شعر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت بیان کر دی جاتی ہے تو دوسرے شعر میں ظلم و ستم اور تیسرے میں ہجر کا دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح دل کے جذبات کا اظہار ، ہجر و وصال کی کیفیت ، شکایت زمانہ، تصوف اورحقیقت و عرفان کے موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔غزل کا دائرہ وسیع ہے اس میں آج کے دور میں ہر طرح کا موضوع ڈالا جاسکتا ہے۔ اور اقبال کی شاعری میں تو غزل نے ایک نئی اکائی کی صورت جنم لیا ہے۔آج کے دور میں بھی اس میں درخشاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حالیؔ نے کیا خوب کہا ہے۔

ہے  جستجو  خوب  سے  خوب  تر  کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں


Share:

10/22/19

معرفتِ نفس اور انسانی نفسیات


 معرفتِ نفس اور انسانی نفسیات:
 انسانی نفسیات اور فطرت معرفت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے انسانی نفسیات اور فطرت ہے کہ انسان اپنی ذات کے علاوہ دوسروں پر اور  دوسری ہر چیز پر غور کرتا ہے۔ دوسروں پر نقطہ چینی، تنقید، اصلاح، تعریف اور تنقید کا بہت خواہاں  ہوتا ہے۔ دوسروں کے اعمال پر تجسس رکھتا ہے اور خود اپنی حرکات و سکنات پر کبھی غور و فکر نہیں کرتا۔اپنی خرابیوں اور کمیوں کجیوں  پر ہمیشہ پردہ ڈالتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا سبب بھی دوسروں کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنے نفس اور خواہش کو محفوظ کرتا ہے۔ اب اس پہلو سے تمام انسانوں کو دیکھا جائے تو سب اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کو غلط کہتے ہیں۔ تو اصلاح اور درستی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور بگاڑ بڑھتا  چلا جاتا ہے ۔جب کوئی  اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تو۔  ’’غلط تو ہو رہا ہے‘‘  اب اس کو درست کیسے کیا جائے اس کا ایک ہی حل ہے وہ ہے انسان کے اندر اپنی ذات کے ادراک کا شعور پیدا کیا جائے۔ اپنی ذات کے مطالعے کی دلچسپی پیدا کی جائے، انسان کی توجہ دوسروں کی بجائے اس کی اپنی ذات کی طرف مبذول کرائی جائے، انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف ہوگی تو اسے اپنی حرکات و سکنات اپنا کلمہ کلام اپنے سامنے کھلی کتاب اور فلم کی طرح  چلتا ہوا نظر آئے گا اور جیسے انسان دوسروں کو حرکت کرتے عمل کرتے دیکھتا ہے ویسے اپنی ذات کو بھی دیکھے گا جیسے  دوسروں پر نقطہ چینی اور تنقید کرتا ہے اب وہ اپنی ذات پر تنقید کرتا نظر آئے گا اور یوں جب وہ خود اپنی ذات اپنے افعال و اعمال کا ادراک کر لے گا تو اصلاح کی طرف راغب ہو گا ، کیونکہ اصلاح کی خواہش انسان میں ہمیشہ رہتی ہے مگر وہ ہمیشہ دوسروں کی اصلاح چاہتا ہے اور جب خود اپنا وجود اس کے سامنے ایک اور انسان کی صورت میں آئے گا تو وہ اصلاح چاہے گا یوں اس کی اصلاح ہوجائے گی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تزکیہ نفس ہوجائے گا اور تزکیہ نفس کا عمل مکمل ہو گا تو معرفت باری تعالی اس کو حاصل ہو جائے گی۔
محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ | معرفتِ نفس | خود آگاہی | خود شناسی


من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
 یہ جملہ بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے   من عرف نفسہ  اور  فقد عرف ربہ  پہلے حصے میں معرفت ِنفس اور دوسرے حصے میں معرفتِ الہی ہے پہلی سیڑھی اور عمل کی بات عرفانِ نفس ہے،  یعنی بندے کا اپنے آپ کو پہچاننا اپنا ادراک اور عرفان ،تو جب یہ مرحلہ طے ہو جائے گا دوسرا مرحلہ اس کے ساتھ مشروط ہے اور خود ہی طے پا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ عرفان  اور معرفت کیا چیز ہے؟ اکثر معرفت اور علم کو مترادف ذکر کیا جاتا ہے۔ عرف یعرف   کا معنی ’’جان لینا ‘‘ کیا جاتا ہے اور اسی طرح علم یعلم کا معنی ’’ جان لینا‘‘  کیا جاتا ہے۔ اگر یہی دونوں کا معنی و مفہوم ہے تو علم یعلم ذکر کیوں نہ کیا گیا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:
و َاِذَا سَمِعُوا مَا اُنزِلَ اِلَی الرَّسُولِ تَرٰی اَعیُنَھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّمعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الحَقِّ
ترجمہ: اور جب وہ سنیں جو رسول پر نازل ہوا تو  آپ ان کی آنکھوں سے حق کو پہچان لینے کی وجہ سے آنسوں بہتے ہوئے دیکھیں گے۔
آنسوؤں کا آنکھ سے نکلنا یہ دلی کیفیت کی غمازی کرتا ہے اور دل کی کیفیت کا تبدیل ہونا عرفانِ ذات کے سبب ہوتا ہےجس  کا منبع و مرکز دل ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:  انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء  ’’اللہ سے اس کے بندوں میں سے صاحب علم ڈرتے ہیں‘‘  علم کا معنی ہیں ذہن میں کسی چیز کا آجانا، تو ڈر اور علم کا تعلق ذہن سے ہے اور ڈر پیدا ہوا ۔جبکہ عرفان کا تعلق دل سے ہے اور اس کے سبب آنسو جاری ہوگئے۔
 عرفان اور علم کی ایک اور وضاحت یہ ہے کہ کسی چیز کی صورت دیکھ کر اس کی صفات کا اندازہ لگانا یا صورت کا ذہن میں آجانا علم کہلاتا ہے جبکہ صفات کو دیکھ کر یا صفات کو پہچان کر ذات کافہم عرفان کہلاتا ہے۔
 اب جو یہ کہا گیا کہ جس نے اپنی ذات کا عرفان پالیا اس کا کیا مطلب ہے؟ جس طرح کہا گیا کہ عرفان صفات سے ذات کی طرف کا سفر ہے اس کا مطلب ہوا  کہ انسان بھی ایسی صفات کا حامل ہے کہ اسے کہا گیا کہ اپنا عرفان کرو اپنی معرفت حاصل کرو اب لازمی امر ہے کہ انسان اس کائنات میں اپنی ذات سے وجود میں آنے والے معاملات پر غور کرے ان صفات کو پہچانے جن کا وہ حامل ہے۔ ہم سے غلطی ہیں یہی ہوتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ:
’’ میں کیا ہوں؟ اور کیا کر سکتا ہوں؟ یعنی اپنی ذات سے صفات کی طرف سفر کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے انسان کو اپنی صفات پر غور کرنے کا کہا گیا ہے‘‘
 مثال کے لئے چند ایک صفات ذکر کی جارہی ہیں جو ہماری ابدی نجات کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: نحن و اقرب الیہ من حبل الورید ہم اس کی شہ رگ  سے زیادہ قریب ہیں اس آیت کے مفہوم کو ہم نے اس مفہوم  میں سمجھا کہ اللہ ہماری شہ رگ کے قریب ہے جبکہ کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ وہ صرف ہماری  ہی شہ رگ سے  قریب ہے کسی اور مخلوق کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیے یہ الگ معاملہ ہے  کہ وہ کسی بھی چیز سے بے خبر نہیں ہے اور نہ وہ کسی بھی چیز سے دور ہے وہ ہر جگہ ہر وقت موجود ہے۔ مگر اس کے خطاب اور کلام کا مصداق صرف حضرت انسان ہے، تو یہ انسان کی ایک صفت ہے کہ وہ اللہ کے کلام کا مخاطب ٹھہرا۔
 دوسری مثال ارشاد باری تعالی ہے  وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون  ’’اور میں نے انسان اور جن کو فقط اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ اگر اس کلام پر غور کیا جائے تو انسان کو فقط اپنی عبادت کیلئے پیدا کرنا یہ بھی انسان کی صفات میں شامل ہے کہ وہ عبادت کے لیے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر اس کی بندگی کرتی رہتی ہے ۔  مگر اس نے کسی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا نہیں کیا۔ یہ خطاب صرف جناب انسان سے ہے اور جن جو کہ غیبی مخلوق ہے چونکہ ذکر انسان کا ہے اس لئے اسی کو موضوع ِسخن کیا جارہا ہے ۔باقی مخلوقات کے بارے میں جو زمین و آسمان  میں ہیں ۔  ان کے بارے میں ارشاد فرمایا یہ سب تمہارے نفع کے لیے اور فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے مثلاً  ہوا ،پانی، بادل، چاند، ستارے ،سورج  سب انسان کے لئے مسخر کر دیے اور انسان کو فقط اپنے لیے پیدا کیا۔
 تیسری مثال قرآن مجید میں جابجا ہمیں یہ الفاظ ملتے ہیں  افلا یتدبرون، افلا یتفکرون، لعلھم یتذکرون ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انسان کو فہم اور شعور عطا کیا گیا ہے کہ اسے کبھی زمین و آسمان کی تخلیق اور وجود پر غور و فکر پر اکسایا جاتا ہے اور کبھی  اللہ کی آیات اور اس کے کلام پر تدبر کا کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو غیر معمولی طاقت دی ہے جو کہ اس کی مخلوقات پر غوروفکر کرسکتی ہے اور اس کا ادراک کرسکتی ہے انسان اللہ کی عطا کردہ بے پناہ قوتوں کا حامل ہے وہ قوت جسمانی ہرگزنہیں ہے کیونکہ انسان جسمانی لحاظ سے کرہ ارض پر بہت کمزور جسم ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس سے ہرجانور طاقتور  ہے گھوڑا ، اونٹ ،  جنگلی درندے پرندے سب انسان سے جسمانی لحاظ سے طاقتور ہیں مگر سب کو انسان قید کرکے اور مسخر کر کے اپنا کام لے رہا ہے کہیں جنگلی درندوں کو نچایا جارہا ہے تو کہیں اونٹ اور گھوڑے کو لگام ڈال کر وزن لادا جا رہا ہے المختصر انسان جسمانی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود فہم وفراست اور عرفان و ادراک کی بےپناہ قوتوں کا حامل ہے۔ جنہیں استعمال میں لا کر کائنات کو مسخر کر رہا ہے آج کا سائنسی دور اور سائنسی ترقی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 اپنی ذات کے عرفان سے مراد اپنی صفات کو پہچاننا ہے جب اپنی صفات کی پہچان ہوتی ہے تو لازمی امر ہے اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہے اور اس کا نتیجہ عرفان ذات باری تعالیٰ انعام میں ملتا ہے۔
 معرفتِ نفس اور انسانی نفسیات:
 انسانی نفسیات اور فطرت معرفت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے انسانی نفسیات اور فطرت ہے کہ انسان اپنی ذات کے علاوہ دوسروں پر اور  دوسری ہر چیز پر غور کرتا ہے۔ دوسروں پر نقطہ چینی، تنقید، اصلاح، تعریف اور تنقید کا بہت خواہاں  ہوتا ہے۔ دوسروں کے اعمال پر تجسس رکھتا ہے اور خود اپنی حرکات و سکنات پر کبھی غور و فکر نہیں کرتا۔اپنی خرابیوں اور کمیوں کجیوں  پر ہمیشہ پردہ ڈالتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا سبب بھی دوسروں کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنے نفس اور خواہش کو محفوظ کرتا ہے۔ اب اس پہلو سے تمام انسانوں کو دیکھا جائے تو سب اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کو غلط کہتے ہیں۔ تو اصلاح اور درستی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور بگاڑ بڑھتا  چلا جاتا ہے ۔جب کوئی  اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تو۔  ’’غلط تو ہو رہا ہے‘‘  اب اس کو درست کیسے کیا جائے اس کا ایک ہی حل ہے وہ ہے انسان کے اندر اپنی ذات کے ادراک کا شعور پیدا کیا جائے۔ اپنی ذات کے مطالعے کی دلچسپی پیدا کی جائے، انسان کی توجہ دوسروں کی بجائے اس کی اپنی ذات کی طرف مبذول کرائی جائے، انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف ہوگی تو اسے اپنی حرکات و سکنات اپنا کلمہ کلام اپنے سامنے کھلی کتاب اور فلم کی طرح  چلتا ہوا نظر آئے گا اور جیسے انسان دوسروں کو حرکت کرتے عمل کرتے دیکھتا ہے ویسے اپنی ذات کو بھی دیکھے گا جیسے  دوسروں پر نقطہ چینی اور تنقید کرتا ہے اب وہ اپنی ذات پر تنقید کرتا نظر آئے گا اور یوں جب وہ خود اپنی ذات اپنے افعال و اعمال کا ادراک کر لے گا تو اصلاح کی طرف راغب ہو گا ، کیونکہ اصلاح کی خواہش انسان میں ہمیشہ رہتی ہے مگر وہ ہمیشہ دوسروں کی اصلاح چاہتا ہے اور جب خود اپنا وجود اس کے سامنے ایک اور انسان کی صورت میں آئے گا تو وہ اصلاح چاہے گا یوں اس کی اصلاح ہوجائے گی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تزکیہ نفس ہوجائے گا اور تزکیہ نفس کا عمل مکمل ہو گا تو معرفت باری تعالی اس کو حاصل ہو جائے گی۔
محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

10/20/19

دوستی جب کسی سے کی جائے



دوستی جب کسی سے کی جائے

دشمنوں کی بھی رائے لی جائے


موت کا زہر ہے فضاؤں میں

اب کہاں جا کے سانس لی جائے


بس اسی سوچ میں ہوں ڈوبا ہوا

یہ ندی کیسے پار کی جائے


اگلے وقتوں کے زخم بھرنے لگے

آج پھر کوئی بھول کی جائے



بوتلیں کھول کے تو پی برسوں

آج دل کھول کر ہی پی جائے



Share:

10/19/19

Do you know who is poor? مفلس کون ہے؟


عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ أَتَدْرُونَ من الْمُفْلِسُ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا الْمُفْلِسُ فِينَا یا رَسُولَ اللہِ صَلی اللہُ علیہ وَ الِہ وِسَلمَ مَنْ لاَ دِرْهَمَ لَهُ وَلاَ مَتَاعَ ‏.‏ قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي مَن يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَةٍ وَصِيَامٍ وَزَكَاةٍ وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيُعْطَى هَذَا فیُقعَدُ فیَقتَصُّ ھذا مِنْ حَسَنَاتِهِ وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ مِنَ الخَطَایَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ۔ ھذا حسن
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا  : کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے ؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ہم  میں مفلس وہ ہے جس کے پاس مال و متاع نہ ہو ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز ، روزہ اور زکوۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ،کسی پر بہتان لگایا ہو گا ،کسی کا مال غصب کیا ہو گا، کسی کا خون بہایا ہو  گا اور کسی کو مارا ہو گا۔لہذا ان برائیوں کے بدلے میں اس کی نیکیاں مظلوموں میں تقسیم کر دی جائیں گی۔ یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی ۔ اس کا ظلم ابھی باقی ہو گا ، چنانچہ مظلوموں کے گناہوں کا بوجھ اس پر لاد دیا جائے گا اور پھر جہنم میں دھکیل دیا جائے گا ۔ یہ حدیث حسن ہے
Do you know who is poor? They (the Companions of the Holy Prophet) said: A poor man amongst us is one who has neither dirham with him nor wealth. He (the Holy Prophet) said: The poor of my Umma would be he who would come on the Day of Resurrection with prayers and fasts and Zakat but (he would find himself bankrupt on that day as he would have exhausted his funds of virtues) since he hurled abuses upon others, brought calumny against others and unlawfully consumed the wealth of others and shed the blood of others and beat others, and his virtues would be credited to the account of one (who suffered at his hand). And if his good deeds fall short to clear the account, then his sins would be entered in (his account) and he would be thrown in the Hell-Fire.

Share:

10/16/19

پاکستان میں ترقی کی حقیقت۔ WHERE ARE WE ? IN PAKISTAN....


بندے کو حقیقت پسند ہونا چاہیے۔اور اللہ جل شانہ کی عطا کردہ فہم و فراست اور عقل و شعور سے کام لینا چاہیے۔ کسی بھی ایک جماعت کی حمایت یا مخالفت نہیں کرنی چاہیے  ہاں جس جس نے جو غلط کیا اس کو غلط کہنا چاہیے اور جس نے جو صحیح کیا اس کو صحیح ۔ موجودہ سیاسی اور افراتفری کے عالم میں اپنا موقف دینا چاہیے تا کہ چند لوگ غلط فہمی سے بچ جائیں۔۔۔
سیاست کرنا اسلامی اصولوں پر عین عبادت ہے اور سنت نبوی ہے۔ موجودہ دنیا کا طرز سیاست درست نہیں ہے ہر کوئ افراط و تفریط کا شکار ہے۔ اصلاح معاشرہ اور اصلاح امور سلطنت کےلیے انسان کا اپنا ذاتی اور اجتماعی کردار خلوص پر مبنی ہونا چاہیے۔
ملک خداداد پاکستان میں صاحب اقتدار پارٹیاں نہ تو ساری فرشتوں پر مبنی ہیں اور نہ ہی ساری کرپٹ مافیا پر مبنی ہیں جہاں برے لوگ ہیں وہاں اچھے لوگ بھی ایوان میں موجود ہوتے ہیں۔ ہر دور میں اونچ نیچ ہوتی آئی ہیں ہر سیاسی دور میں غلطیاں اور اچھائیاں موجود ہیں مگر سطحی اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے ملک نے ترقی کی اور ایک لحاظ سے ملک کو نا قابل تلافی نقصان بھی ہوا ہے۔ مگر میرے اعتبار سے نقصان فائدے سے کہیں زیادہ ہے۔ میرے ملک عزیز کو ہر سہولت اور جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت تھی سو کافی ترقی نظر آتی ہے مگر یہ امر نہیں چاہیے تھا کہ ہم مقروض قوم بن جائیں ہم اوروں کی پالیسیوں کے غلام بن جائیں ۔ معاملات ہمارے ہوں مگر تابعداری ہم غیروں کی کرتے پھریں ۔آج پاکستان کا ہر محکمہ دیکھ لیں مثلاً تعلیم کا محکمہ ہے معاشرہ ہماراہے اس کی ضروریات اس کے مسائل اور اس کی ترجیحات کیا ہیں اور اس کو چلانے کے لیے پالیسیاں دیکھ لیں کوئی پالیسی بھی ہمارے معاشرے سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ پالیسیاں غیروں کی۔ ہماری معیشت کی صورت حال یہ سب اوروں کے ہاتھ میں ہے جیسے وہ چاہتے ہیں کرواتے ہیں ہماری کوئی مرضی نہیں کوئی پالیسی نہیں یہ صرف اور صرف قرضے کی وجہ سے ہے۔ قوم مقروض ہو گئی بس ذہنی غلام بن گئی۔۔۔ آج تک ملک کا گراف دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ موٹرویز بنے روڈز بنے پلیں بنیں میٹروز بنیں یہ سب ضروری تھا سو ہوا مگر دیکھیں سطحی اعتبار سے ڈالر اوپر سے اوپر قرضے اوپر سے مہنگائی زیادہ سے زیادہ کرپشن زیادہ سے زیادہ انصاف بد ترین سے بد ترین تعلیمی حالت بد ترین سے بد ترین کیوں ایسا ہوا ۔۔ کہیں نہ کہیں ضرور کچھ غلط ہے۔ خاک ترقی ہوئی ۔۔ ہاں ترقی ہوتی تو قرضے اترتے ترقی ہوتی تو ڈالر سستا ہوتا ترقی ہوتی تو لوگوں کا چال چلن بدلتا ترقی ہوتی تو انفرادی زندگی میں انقلاب آتا ترقی ہوتی آج ہم بھی چین کے ہم پلہ کھڑے ہوتے ترقی ہوتی تو آج امریکہ کی آنکھوں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ترقی ہوتی تو آج دنیا میں ہم ذلیل و خوار نہ ہوتے کیا کیا رونے رووں۔
میں پوچھتا ہوں ترقی جو ہوئی تو یہ بیرونی قرضے نوے ارب ڈالر کو کیوں پہنچ گئے یہ اندرونی قرضے ستائیس ہزارارب ڈالر کو کیوں پہنچ گئے یار یہ حالات کس نے پیدا کیے یہ میں نے قرض لیا ہے جو ہر فرد  ڈیڑھ لاکھ کا قروض ہے بتاو جو بیچارے تھر پارکر میں بھوکے مر رہے ہیں وہ بھی ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ کے مقروض ہیں انہوں نے لیا یہ قرضہ۔۔ آدھی سے زیادہ آبادی پاکستان کی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ کہاں ہے ترقی جو صاحبان اقتدار نے اس ملک کو دی ہے۔۔ آج افسوس ہوتا ہے ترقی ترقی کی رٹ لگانے والے پڑھے لکھے جاہلوں پر۔
ہاں آج صرف ہر کوئی اپنی اپنی پارٹی کی بات کرتا ہے کوئی پٹواری بن گیا تو کوئی یوتھیا ایک دوسرے کو برا بھلا اور اپنے اپنے لیڈر کی تعریف میں ہر حد کو پار کر جاتے ہیں۔جب بھی نئی حکومت آئی ساتھ مہنگائی لائی ۲۰۱۳ کے اخبارات اٹھائیں اور پڑھیں بجلی پانچ روپے پر یونٹ اور ڈالر دس روپے ہوا اب وہی لوگ پی ٹی آئی کو بات کرتے ہیں اگر آج ڈالر مہنگا ہوا تو اس وقت بھی ہوا تھا اگر آج بجلی مہنگی ہوئی تو اس وقت بھی ہوئی تھی فرق توکچھ نہ ہوا۔
اللہ تعالی کی ذات جہاں رحمان ہے وہاں اسکی صفت جبار بھی ہےاگر وہ غفور و رحیم ہے تو اس کی شان قہار اور سریع الحساب بھی ہے انسان پر اللہ کا قہر نازل ہوتا ہے مگر وہ پہچان نہیں پاتا ظلم کب تک چلے گا کیا وہ اللہ جل شانہ اپنی مخلوق سے سبکدوش ہو گیا کیا اسے اپنے مخلوق کی پرواہ نہیں رہی۔ سنو!ایسا کچھ بھی نہیں اللہ انسان کو ڈھیل دیتا ہے پھر اسکی پکڑ ایسی ہے کہ ( ان اخذہ الیم شدید) نسلیں یاد رکھتی ہیں۔ کیا پاکستانی عوام پر ظلم کرنے والوں کو اللہ تعالی چھوڑ دے گا نہیں ایسا نہیں اللہ تعالی پکڑے گا وہ پٹواری ہوں یا یوتھیے یا کسی بھی جماعت سے ہوں۔ اور ہاں میرا قرآن مجید پر کامل یقین ہے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جسے چاہتا ہے حکومت دیتا ہے جس سے چاہتا چھین لیتا۔ کون سی فوج ہے یا عدلیہ کہ ایسا کرے یہ صرف میرے اللہ کے ذات ہے جو  چاہے عطا کرے۔
جب تک اللہ نے چاہا نون لیگ کو حکومت دی اور جب چاہا چھین لی یہ سزائیں یہ ذلتیں یہ عزتیں سب اللہ کی طرف سے ہیں آج یہ ذلیل ہو رہے ہیں تو کل جو بھی کرے گا بچے گا کوئی بھی نہیں۔
جو بھی اللہ تعالی کی بے کس اور غریب قوم کا نوالہ چھینے گا اللہ اس کو ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گا جو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرے گا وہ بچ نہیں پائے گا اللہ کے لاٹھی بے آواز ہے اور تباہ و برباد کر دیتی ہے۔
سنیں نہ میں یوتھیا ہوں نہ پٹواری جو اللہ نے مجھے صلاحیت دی اس کے مطابق جو غلط ہوتا ہے اس کو غلط اور جو صحیح ہوتا ہے اس کو صحیح کہتا ہوں۔
نا ماننے کا میرے پاس کوئی علاج نہیں اور نا ہی نا ماننے والوں کے لیے دلیل ہے۔
جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
میں نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive