Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/24/19

غزل کی تعریف اور ارتقاء

غزل کا ارتقاء:

غزل عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب فارسی میں قصیدے سے الگ ہو کر غزل کے روپ میں جلوہ نما ہوا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غزل پہلے عربی زبان سے فارسی میں آئی اس کے بعد فارسی سے اردو تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے عہد میں ہی کر لیا۔پھر اردو میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جو غمِ جاناں ، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایرانی صنف ہے جو فارسی کے ساتھ ہندوستان میں رونما ہوئی اور اب اردو میں مقبول ہے۔

غزل کی تعریف:

غزل ایک مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔ اس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ۔ یا پھرعورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔قیس رازی نے العجم میں غزل کے سلسلے میں یہ نشاندہی کی ہے کہ لفظ غزل دراصل غزال سے ہے۔ ڈاکٹر سٹن گاس نے کہا ہے کہ غزل سے مراد سوت کاتنے کے ہیں۔

غزل کی تشریح و توضیح:

ہیت کے لحاظ سے غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہو۔ اس کا ہر شعر ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ ردیف نہ ہونے کی صورت میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع جبکہ آخری شعر جس میں تخلص اسرعمال ہوتا ہے مقطع کہلاتا ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مستقل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ اس کے ہر شعر میں الگ ہی مفہوم باندھا جاتا ہے۔بعض اوقات ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنیٰ ہو سکتی ہے۔ غزل ایک بحر میں لکھی جاتی ہے ۔

غزل میں تین اہم کردار خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس میں عاشق، محبوب اور رقیب شامل ہیں۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ پھر اس کے بعد اپنے محبوب کے ظلم و ستم پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اور بعد ازاں اپنے رقیب کو بھی برا بھلا کہ جاتا ہے۔ شاعر یہ تمام صورتِ حال ایک خاص ترتیب سے بیان کرتا ہے۔جیسے ایک شعر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت بیان کر دی جاتی ہے تو دوسرے شعر میں ظلم و ستم اور تیسرے میں ہجر کا دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح دل کے جذبات کا اظہار ، ہجر و وصال کی کیفیت ، شکایت زمانہ، تصوف اورحقیقت و عرفان کے موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔غزل کا دائرہ وسیع ہے اس میں آج کے دور میں ہر طرح کا موضوع ڈالا جاسکتا ہے۔ اور اقبال کی شاعری میں تو غزل نے ایک نئی اکائی کی صورت جنم لیا ہے۔آج کے دور میں بھی اس میں درخشاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حالیؔ نے کیا خوب کہا ہے۔

ہے  جستجو  خوب  سے  خوب  تر  کہاں

اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive