Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/25/19

تاریخ میلاد النبی ﷺ پر بحث

تاریخ میلاد النبی ﷺ پر بحث:
دین میں نقل اور روایت اصل اور اساس ہے عقلی استدلالات سائنسی اور فنی حسا بات سے ہم استفادہ تو کرسکتے ہیں لیکن اس کی بنیاد پر نقل اور روایت کی ساری اساسات  کو رد نہیں کر سکتے۔اسی روش کی بنا پر ماضی قریب اور عہد حاضر کے متجددین نےجو اہل مغرب سے ہمیشہ مرعوب رہتے ہیں اور مستشرقین کے پراپیگنڈے سے جلد متاثر ہو جاتے ہیں۔معجزات انبیائے کرام کا انکار  کیا واقعہ اصحاب فیل، معجزہ شق القمر ،معجزہ معراج النبی اور سابق انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات کی جو روایات امت میں تعامل و  توارث کے ساتھ مسلّمہ چلی آ رہی ہیں ان کی عقلی تاویلیں شروع کر دیں۔ 

اس طرح ختم المرسلین رحمۃ اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا یوم ولادت باسعادت پیر 12ربیع الاول کو ہونا صدیوں سے امت میں مسلم ہے۔ اس کے لئے ازسرنو بحث و تمحیص کا سلسلہ شروع کرنا درست نہیں ہے پھر یہ کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں ہے کہ کسی نے اس معین دین کا انکار کردیا تو شرع قباحت لازم آئے گی یا اس کی بنا پر کوئی رائے قائم کردیں تو اس کے سبب فساد عقیدہ لازم آجائے گا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے یوم ولادت کا متبرک اور مقدس ہونا مسلم ہونا چاہیے۔ تعین پر اعتقاد و یقین ضروریات شرعیہ میں شامل نہیں ہے۔جدید سائنسی علوم کے سہارے سے رائے قائم کرنے والے خود بھی ایک تاریخ پر متفق نہیں ہیں۔ اگر ہم نقلی روایات کو چھوڑ کر ان کے افکار کو مان لیں تو بھی اختلاف قائم رہے گا۔ پس اصل مبحث یہ نہیں کہ تاریخ کون سی تھی اصل مرکز عقیدت یوم میلاد النبی ﷺ کی تقدیس ، تعظیم اور حرمت ہے اور  اہل عقیدت و محبت کے درمیان اس مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہمارے عہد حاضر کے علماء میں سے جسٹس علامہ پیر کرم شاہ الازہری نے اپنی مایہ ناز تصنیف ضیاءالنبی میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی ہے اہل ذوق اس کی جلد دوم صفحہ 33 تعداد 39 پر تفصیل سے ملاحظہ فرمالیں ۔ہمارے ایک دوسرے دینی سکالر پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی تصنیف میلاد النبی میں اس پر بحث کی ہے ہم ان دونوں اہل علم کی تحقیقات سے استفادہ کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ چند دلائل کا ذکر کر رہے ہیں اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ کائنات کی تمام علماء کا اتفاق ہے ربیع الاول کا بابرکت مہینہ تھا اور متقدمین اور متاخرین کا اجماع اسی پر ہے کہ ربیع الاول ی بارہ تاریخ تھی اور دن دو شنبہ کا تھا ۔
بقول قاضی سلمان منصور پوری مصنف ‘‘ رحمۃ اللعالمین’ یہ ۲۲ اپریل ۵۷۱ عیسوی اور ہندی مہینوں کے حساب سے یکم جیٹھ ۶۲۸ بکرمی بنتی ہے۔
معروف سکالر سیرت نگار علامہ محمد رضا مصری مصنف ‘‘ محمد رسول اللہ ﷺ ’’ اور محمد صادق ابراہیم عرجون کی تحقیق کے مطابق سن عیسوی کے حساب سے ۲۰ اگست ۵۷۰۰ عیسوی بنتی ہے۔ علم الہیئت کے ماہر محمود پاشا فلکی مصری اور بعض دیگر متاخرین کی تحقیق ۹ ربیع الاول کے حق میں بھی ہے مگر عالم اسلام میں قدیم زمانے سے اجماع ۱۲ ربیع الاول پر ہی چلا آ رہا ہے۔ اس لیے قول ِ مختار کا درجہ اسی کو حاصل ہے۔ اس حوالے سے ہم بعض ائمہ کی تحقیق  بیان کرتے ہیں۔
امام ابن اسحاق متوفی ۱۵۱ ہجری لکھتے ہیں۔ ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کی ولادت مبارکہ بروز ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں ہوئی (الوفا ص ۸۸)  مشہور سیرت نگار ابن ہشام متوفی ۲۱۳ ہجری لکھتے ہیں۔ ترجمہ رسول اللہ ﷺ پیر کے دن  ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے۔( سیرت النبویہ جلد ۱ ، ص ۱۵۸، مطبوعہ : دار الحیل، بیروت)
معروف مفسر و مورخ امام ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ ہجری لکھتے ہیں: رسول کریم ﷺ کی ولادت مبارکہ بروز پیر ۱۲ ربیع الاول کو عام الفیل میں ہوئی۔( تاریخ الاممم و الملوک المعروف تاریخِ طبری جلد ۲، ص ۱۲۵)۔
 علامہ ابن خلدون متوفی ۸۰۸ ہجری جو علم تاریخ اور فلسفی تاریخ کے امام مانے جاتے ہیں ، بلکہ فلسفہ تاریخ کے موجد بھی ہیں ، لکھتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی ولادت با سعادت عام الفیل کو ماہِ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو ہوئی ، نوشیرواں کی حکمرانی کا چالیسواں سل تھا۔ ( اتاریخ ابن خلدون ، جلد ۲ ، ص ۷۱۰، مطبوعہ بیروت)
علامہ ابو الحسن علی بن محمد الماوردی متوفی ۴۲۹ ہجری جو علم سیاست اسلامیہ کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی کتاب ‘‘ الاحکام السلطانیہ’’ علم سیاست کے طلباء کے لیے بہترین ماخذ ہے۔ اعلام النبوۃ میں تحریر فرماتےہیں: ترجمہ۔ واقعہ اصحاب الفیل کے پچاس روز بعد اور آپ کے والد کے انتقال کے بعد حضور ﷺ بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ (اعلام النبوۃ ۱۹۲)۔
امام الحافظ ابو الفتح محمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن یحی بن سید الناس الشافعی الاندلسی متوفی ۷۳۴ ہجری لکھتے ہیں: ہمارے آقا ﷺ اور ہمارے نبی محمد ﷺ پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو عام الفیل میں پیدا ہوئے بعض نے کہا ہے کہ واقعہ فیل کے پچاس روز بعد حضور ﷺ کی ولادت ہوئی۔ (عیون الاثر ، جلد ۱ ، ص ۲۶، مطبوعہ : دار المعرفہ، بیروت)
دور حاضر کے سیرت نگار محمد صادق ابراہیم عرجون ، جو جامعہ ازہر مصر کے کلیہ ‘‘ اصول الدین’’ کے مدیر رہے ہیں اپنی تصنیف ‘‘ محمد رسول اللہ ’ میں لکھتے ہیں ترجمہ: بکثرت طرق روایت سے یہ بات ثابت ہو چکی ہ ے کہ حضور نبی کریم ﷺ بروز دو شنبہ (پیر) بارہ ربیع الاول عام الفیل ، کسری نوشیرواں کے عہد حکومت میں تولد ہوئے اور ایسے علماء  جو شمسی اور قمری تاریخوں کی آپس میں تطبیق کرتے ہیں نے کہا ہے کہ اس دن شمسی تاریخ ۲۰ اگست ۵۷۰ بنتی ہے۔ ( محمد رسول اللہ ، جلد ۱ ، ص ۱۰۲، مطبوعہ دار القلم ، دمشق)
اس موضوع پر سیر حاصل بحث کرتے ہوئے پیر کرم شاہ الازہری ضیاء النبی میں لکھتے ہیں۔ ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں یہی تاریخ روایت کی ہے چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں ترجمہ: حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنھما  بیان کرتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ عام الفیل روز دو شنبہ بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے اسی روز آپ کی بعثت ہوئی اسی روز آپ کو معراج عطا ہوئی ، اسی روز آپ نے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی اور آپ ﷺ کے وصال مبارک کا دن بھی یہی ہے۔ جمہور امت کے نزدیک یہی تاریخ مشہورہے۔
اس کے پہلے راوی ابو بکر بن ابی شیبہ ہیں ان کے بارے میں ابو زرعہ رازی متوفی ۲۶۴ ہجری کہتے ہیں کہ میں نے ابو بکر بن ابی شیبہ سے بڑھ کر حافظ حدیث نہیں دیکھا۔ محدث ابن حبان فرماتے ہیں ابو بکر عظیم حافظ حدیث تھے۔ دوسرے راوی عفان ہیں ان کے بارے میں محدثین کی رائے ہے کہ عفان ایک بلند پائہ امام ، ثقہ اور صاحب ِ ضبط و اتقان ہیں  تیسرے راوی سعید بن میناء ہیں ان کا شمار بھی ثقہ راویوں میں ہوتا ہے۔ یہ صحیح الاسناد روایت  دو جلیل القدر صحابہ حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضر عبد اللہ بن عباس  رضی اللہ عنھما سے مروی ہے۔
محمود پاشا نے اگر علم فلکیات کی مدد سے کچھ تحقیقات کی بھی ہیں تو صحابہ کرام ، تابعین اور دیگر قدماء کی روایات کو جھٹلانے کے لیے ان پر انحصار کسی طرح بھی مناسب نہیں ۔ کیوں کہ سائنسی علوم کی طرح فلکیات کی بھی کوئی بات قطعی نہیں ہوتی ۔ محمود پاشا سے قبل بھی کچھ لوگوں نے علم نجوم کے حسابات سے یوم ولادت معلوم کرنے کی کوشش کی ، علامہ قسطلانی لکھتے : اہل زیچ ( جنتریوں کا حساب نکالنے والے) کا اس قول پر اجماع ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو پیر کا دن تھا اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص بھی علم نجوم اور ریاضی کے ذریعے حساب لگا کر تاریخ نکالے گا مختلف ہو گی۔ پس ہمیں قدیم سیرت نگاروں ، محدثین ، مفسرین ، تابعین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بات ماننا پڑے گی۔

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive