Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/22/19

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ | معرفتِ نفس | خود آگاہی | خود شناسی


من عرف نفسہ فقد عرف ربہ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔
 یہ جملہ بنیادی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہے   من عرف نفسہ  اور  فقد عرف ربہ  پہلے حصے میں معرفت ِنفس اور دوسرے حصے میں معرفتِ الہی ہے پہلی سیڑھی اور عمل کی بات عرفانِ نفس ہے،  یعنی بندے کا اپنے آپ کو پہچاننا اپنا ادراک اور عرفان ،تو جب یہ مرحلہ طے ہو جائے گا دوسرا مرحلہ اس کے ساتھ مشروط ہے اور خود ہی طے پا جائے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ عرفان  اور معرفت کیا چیز ہے؟ اکثر معرفت اور علم کو مترادف ذکر کیا جاتا ہے۔ عرف یعرف   کا معنی ’’جان لینا ‘‘ کیا جاتا ہے اور اسی طرح علم یعلم کا معنی ’’ جان لینا‘‘  کیا جاتا ہے۔ اگر یہی دونوں کا معنی و مفہوم ہے تو علم یعلم ذکر کیوں نہ کیا گیا۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے:
و َاِذَا سَمِعُوا مَا اُنزِلَ اِلَی الرَّسُولِ تَرٰی اَعیُنَھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّمعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الحَقِّ
ترجمہ: اور جب وہ سنیں جو رسول پر نازل ہوا تو  آپ ان کی آنکھوں سے حق کو پہچان لینے کی وجہ سے آنسوں بہتے ہوئے دیکھیں گے۔
آنسوؤں کا آنکھ سے نکلنا یہ دلی کیفیت کی غمازی کرتا ہے اور دل کی کیفیت کا تبدیل ہونا عرفانِ ذات کے سبب ہوتا ہےجس  کا منبع و مرکز دل ہے۔ ایک مقام پر ارشاد فرمایا:  انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء  ’’اللہ سے اس کے بندوں میں سے صاحب علم ڈرتے ہیں‘‘  علم کا معنی ہیں ذہن میں کسی چیز کا آجانا، تو ڈر اور علم کا تعلق ذہن سے ہے اور ڈر پیدا ہوا ۔جبکہ عرفان کا تعلق دل سے ہے اور اس کے سبب آنسو جاری ہوگئے۔
 عرفان اور علم کی ایک اور وضاحت یہ ہے کہ کسی چیز کی صورت دیکھ کر اس کی صفات کا اندازہ لگانا یا صورت کا ذہن میں آجانا علم کہلاتا ہے جبکہ صفات کو دیکھ کر یا صفات کو پہچان کر ذات کافہم عرفان کہلاتا ہے۔
 اب جو یہ کہا گیا کہ جس نے اپنی ذات کا عرفان پالیا اس کا کیا مطلب ہے؟ جس طرح کہا گیا کہ عرفان صفات سے ذات کی طرف کا سفر ہے اس کا مطلب ہوا  کہ انسان بھی ایسی صفات کا حامل ہے کہ اسے کہا گیا کہ اپنا عرفان کرو اپنی معرفت حاصل کرو اب لازمی امر ہے کہ انسان اس کائنات میں اپنی ذات سے وجود میں آنے والے معاملات پر غور کرے ان صفات کو پہچانے جن کا وہ حامل ہے۔ ہم سے غلطی ہیں یہی ہوتی ہے کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ:
’’ میں کیا ہوں؟ اور کیا کر سکتا ہوں؟ یعنی اپنی ذات سے صفات کی طرف سفر کرتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے انسان کو اپنی صفات پر غور کرنے کا کہا گیا ہے‘‘
 مثال کے لئے چند ایک صفات ذکر کی جارہی ہیں جو ہماری ابدی نجات کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: نحن و اقرب الیہ من حبل الورید ہم اس کی شہ رگ  سے زیادہ قریب ہیں اس آیت کے مفہوم کو ہم نے اس مفہوم  میں سمجھا کہ اللہ ہماری شہ رگ کے قریب ہے جبکہ کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا کہ وہ صرف ہماری  ہی شہ رگ سے  قریب ہے کسی اور مخلوق کے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کیے یہ الگ معاملہ ہے  کہ وہ کسی بھی چیز سے بے خبر نہیں ہے اور نہ وہ کسی بھی چیز سے دور ہے وہ ہر جگہ ہر وقت موجود ہے۔ مگر اس کے خطاب اور کلام کا مصداق صرف حضرت انسان ہے، تو یہ انسان کی ایک صفت ہے کہ وہ اللہ کے کلام کا مخاطب ٹھہرا۔
 دوسری مثال ارشاد باری تعالی ہے  وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون  ’’اور میں نے انسان اور جن کو فقط اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔ اگر اس کلام پر غور کیا جائے تو انسان کو فقط اپنی عبادت کیلئے پیدا کرنا یہ بھی انسان کی صفات میں شامل ہے کہ وہ عبادت کے لیے ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کا ذکر اس کی بندگی کرتی رہتی ہے ۔  مگر اس نے کسی مخلوق کو اپنی عبادت کے لیے پیدا نہیں کیا۔ یہ خطاب صرف جناب انسان سے ہے اور جن جو کہ غیبی مخلوق ہے چونکہ ذکر انسان کا ہے اس لئے اسی کو موضوع ِسخن کیا جارہا ہے ۔باقی مخلوقات کے بارے میں جو زمین و آسمان  میں ہیں ۔  ان کے بارے میں ارشاد فرمایا یہ سب تمہارے نفع کے لیے اور فائدے کے لئے پیدا کیا گیا ہے مثلاً  ہوا ،پانی، بادل، چاند، ستارے ،سورج  سب انسان کے لئے مسخر کر دیے اور انسان کو فقط اپنے لیے پیدا کیا۔
 تیسری مثال قرآن مجید میں جابجا ہمیں یہ الفاظ ملتے ہیں  افلا یتدبرون، افلا یتفکرون، لعلھم یتذکرون ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انسان کو فہم اور شعور عطا کیا گیا ہے کہ اسے کبھی زمین و آسمان کی تخلیق اور وجود پر غور و فکر پر اکسایا جاتا ہے اور کبھی  اللہ کی آیات اور اس کے کلام پر تدبر کا کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالی نے انسان کو غیر معمولی طاقت دی ہے جو کہ اس کی مخلوقات پر غوروفکر کرسکتی ہے اور اس کا ادراک کرسکتی ہے انسان اللہ کی عطا کردہ بے پناہ قوتوں کا حامل ہے وہ قوت جسمانی ہرگزنہیں ہے کیونکہ انسان جسمانی لحاظ سے کرہ ارض پر بہت کمزور جسم ہے۔اگر دیکھا جائے تو اس سے ہرجانور طاقتور  ہے گھوڑا ، اونٹ ،  جنگلی درندے پرندے سب انسان سے جسمانی لحاظ سے طاقتور ہیں مگر سب کو انسان قید کرکے اور مسخر کر کے اپنا کام لے رہا ہے کہیں جنگلی درندوں کو نچایا جارہا ہے تو کہیں اونٹ اور گھوڑے کو لگام ڈال کر وزن لادا جا رہا ہے المختصر انسان جسمانی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود فہم وفراست اور عرفان و ادراک کی بےپناہ قوتوں کا حامل ہے۔ جنہیں استعمال میں لا کر کائنات کو مسخر کر رہا ہے آج کا سائنسی دور اور سائنسی ترقی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 اپنی ذات کے عرفان سے مراد اپنی صفات کو پہچاننا ہے جب اپنی صفات کی پہچان ہوتی ہے تو لازمی امر ہے اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہے اور اس کا نتیجہ عرفان ذات باری تعالیٰ انعام میں ملتا ہے۔
 معرفتِ نفس اور انسانی نفسیات:
 انسانی نفسیات اور فطرت معرفت کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے انسانی نفسیات اور فطرت ہے کہ انسان اپنی ذات کے علاوہ دوسروں پر اور  دوسری ہر چیز پر غور کرتا ہے۔ دوسروں پر نقطہ چینی، تنقید، اصلاح، تعریف اور تنقید کا بہت خواہاں  ہوتا ہے۔ دوسروں کے اعمال پر تجسس رکھتا ہے اور خود اپنی حرکات و سکنات پر کبھی غور و فکر نہیں کرتا۔اپنی خرابیوں اور کمیوں کجیوں  پر ہمیشہ پردہ ڈالتا ہے۔ اپنی غلطیوں کا سبب بھی دوسروں کو بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر معاملے میں اپنے نفس اور خواہش کو محفوظ کرتا ہے۔ اب اس پہلو سے تمام انسانوں کو دیکھا جائے تو سب اپنی غلطیوں پر پردہ ڈال کر دوسروں کو غلط کہتے ہیں۔ تو اصلاح اور درستی کا عمل رک جاتا ہے۔ اور بگاڑ بڑھتا  چلا جاتا ہے ۔جب کوئی  اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں تو۔  ’’غلط تو ہو رہا ہے‘‘  اب اس کو درست کیسے کیا جائے اس کا ایک ہی حل ہے وہ ہے انسان کے اندر اپنی ذات کے ادراک کا شعور پیدا کیا جائے۔ اپنی ذات کے مطالعے کی دلچسپی پیدا کی جائے، انسان کی توجہ دوسروں کی بجائے اس کی اپنی ذات کی طرف مبذول کرائی جائے، انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف ہوگی تو اسے اپنی حرکات و سکنات اپنا کلمہ کلام اپنے سامنے کھلی کتاب اور فلم کی طرح  چلتا ہوا نظر آئے گا اور جیسے انسان دوسروں کو حرکت کرتے عمل کرتے دیکھتا ہے ویسے اپنی ذات کو بھی دیکھے گا جیسے  دوسروں پر نقطہ چینی اور تنقید کرتا ہے اب وہ اپنی ذات پر تنقید کرتا نظر آئے گا اور یوں جب وہ خود اپنی ذات اپنے افعال و اعمال کا ادراک کر لے گا تو اصلاح کی طرف راغب ہو گا ، کیونکہ اصلاح کی خواہش انسان میں ہمیشہ رہتی ہے مگر وہ ہمیشہ دوسروں کی اصلاح چاہتا ہے اور جب خود اپنا وجود اس کے سامنے ایک اور انسان کی صورت میں آئے گا تو وہ اصلاح چاہے گا یوں اس کی اصلاح ہوجائے گی تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تزکیہ نفس ہوجائے گا اور تزکیہ نفس کا عمل مکمل ہو گا تو معرفت باری تعالی اس کو حاصل ہو جائے گی۔
محمد سہیل عارف معینیؔ

Share:

2 comments:

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive