Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

11/29/19

رازِ وفا کو فاش، سرِ عام کر دیا




رازِ وفا کو فاش، سرِ عام کر دیا
اشکوں کا ہو برا ہمیں بدنام کر دیا

ایسی تھی کچھ کشش تیری زلفوں کے جال میں
دانستہ ہم نے دل کو تہہ دام کر دیا

کتنی دعائیں دوں تیری زلفِ دراز کو
کتنا وسیع ہے سلسلہ ءِ دام کر دیا

وہ چشمِ مست کتنی خبردار تھی سنو!
خود ہوش میں رہی ہمیں بدنام کر دیا


یہ دل نواز صورت اور شیوۂِ ستم
اے عشق تو نے حسن کو بد نام کر دیا

دل کے کچھ برے تو نہ تھے دوستو مگر
رنگینی ءِ مزاج نے بد نام کر دیا

آیا خیال تک نہ غمِ روزدار کا
اے دردِ یار تو نے بڑا کام کر دیا

ساجد  کچھ ہم سے ان کی گلی دور تو نہ تھی
لیکن شکستہ پائی نے  ناکام کر دیا

Share:

11/28/19

Dil Kithy Khraya E O bholya دل کتھے کھڑایا ای بھولیا


دل کتھے کھڑایا ای او بھولیا
گل روون پایا ای او بھولیا

جگ ٹھگ باز دا علم تے ہایا
ناز ادائیں تے ڈلھنا نا ہیا
منکھ لوایا ای او بھولیا

ایہ انجام ائی عشقِ لائی دا
بنیا اے ہن تاں شغل خدائی دا
کے ہتھ آیا ای او بھولیا

ہن کیوں گھتناں ایں حال دہائیاں
پہلے ناہنیں سوچ کے لائیاں
گڈیا چایا  ای بھولیا

واہے توں باہلے گھاٹے جھل کے
بے قدراں دے سنگ اچ رل کے
بھرم ونجایا ای بھولیا

درد ہے تینوں بہونہ سمجھایا
کر نئیں بلکل مان پرایا
ہن ازمایا ای بھولیا







Share:

11/26/19

میری زندگی تو فراق ہے وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

میری زندگی تو فراق ہے، وہ ازل سے دل میں مکیں سہی

وہ نگاہِ شوق سے دور ہیں، رگِ جاں سے لاکھ قریں سہی

 

ہمیں جان دینی ہے ایک دن، وہ کسی طرح ہو کہیں سہی

ہمیں آپ کھینچئے وار پر، جو نہیں کوئی تو ہمیں سہی

 

سرِ طور ہو سرِ حشر ہو، ہمیں انتظار قبول ہے

وہ کبھی ملیں، وہ کہیں ملیں، وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی

 

نہ ہو ان پہ میرا جو بس نہیں، کہ یہ عاشقی ہے ہوس نہیں

میں انھی کا تھا میں انھی کا ہوں،وہ میرے نہیں تو نہیں سہی

 

مجھے بیٹھنے کی جگہ ملے، میری آرزو کا بھرم رہے

تیری انجمن میں اگر نہیں، تیری ا نجمن کا قریں سہی

 

تیرا در تو ہمکو نہ مل سکا، تیری رہگزر کی زمیں سہی

ہمیں سجدہ کرنے سے کام ہے، جو وہاں نہیں تو یہیں سہی

 

میری زندگی کا نصیب ہے، نہیں دور مجھ سے قریب ہے

مجھے اسکا غم تو نصیب ہے، وہ اگر نہیں تو نہیں سہی

 

جو ہو فیصلہ وہ سنائیے، اسے حشر پہ نہ اٹھایئے

جو کریں گے آپ ستم وہاں وہ ابھی سہی، وہ یہیں سہی

 

اسے دیکھنے کی جو لو لگی، تونصیر دیکھ ہی لیں گے ہم 

وہ ہزار آنکھ سے دور ہو، وہ ہزار پردہ نشیں سہی


Share:

اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے



اگر کعبہ کا رخ بھی جانب مے خانہ ہو جائے

تو پھر سجدہ مری ہر لغزش مستانہ ہو جائے


وہی دل ہے جو حسن و عشق کا کاشانہ ہو جائے

وہ سر ہے جو کسی کی تیغ کا نذرانہ ہو جائے


یہ اچھی پردہ داری ہے یہ اچھی رازداری ہے

کہ جو آئے تمہاری بزم میں دیوانہ ہو جائے


مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر

دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے



شب فرقت کا جب کچھ طول کم ہونا نہیں ممکن

تو میری زندگی کا مختصر افسانہ ہو جائے


وہ سجدے جن سے برسوں ہم نے کعبہ کو سجایا ہے

جو بت خانے کو مل جائیں تو پھر بت خانہ ہو جائے


کسی کی زلف بکھرے اور بکھر کر دوش پر آئے

دل صد چاک الجھے اور الجھ کر شانہ ہو جائے


یہاں ہونا نہ ہونا ہے نہ ہونا عین ہونا ہے

جسے ہونا ہو کچھ خاک در جانانہ ہو جائے


سحر تک سب کا ہے انجام جل کر خاک ہو جانا

بنے محفل میں کوئی شمع یا پروانہ ہو جائے


وہ مے دے دے جو پہلے شبلی و منصور کو دی تھی

تو بیدمؔ بھی نثار مرشد مے خانہ ہو جائے


تم اپنی دید کا اے جانِ جاناں اعلان تو کر دو


جو ہونا ہے وہ ہو جائے یوں ہی چرچا نہ ہو جائے


نمازِ عشق کا سجدہ ادا کرنا قیامت ہے

یہ ڈر ہے غیر کے آگے کہیں سجدہ نہ ہو جائے


میرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں میں

دمِ آخر ادا یوں سجدہ ِٔ شکرانہ ہو جائے




بیدم وارثی

Share:

نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے


نہ رکتے ہیں آنسو نہ تھمتے ہیں نالے

کہو کوئی کیسے محبت چھپا لے


کرے کوئی کیا گر وہ آئیں یکایک

نگاہوں کو روکے کہ دل کو سنبھالے


چمن والے بجلی سے بولے نہ چالے

غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے


قیامت ہیں ظالم کی نیچی نگاہیں

خدا جانے کیا ھو جو نظریں اُٹھالے


کروں ایسا سجدہ وہ گھبرا کے کہہ دیں

خدا کے لیے اب تو سر کو اُٹھا لے


ٍتمہیں بندہ پرور ہمیں جانتے ہیں

بڑے سیدھے سادھے بڑے بھولے بھالے


بس اتنی سی دوری یہ میں ہوں یہ منزل

کہاں آکے پھوٹے ہیں پاوں کے چھالے


قمر میں ھوں مختار تنظیمِ شب کا

ہیں میرے ہی بس میں اندھیرے اجالے


Share:

11/25/19

فتنوں کے دور میں کیا کرنا چاہیے؟Islam Demands in The Period of temptations


صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ابو ادریس خولانی سے حدیث موجود ہے بخاری کےا لفاظ یہ ہیں :
ابو ادریس خولانی نے حذیفہ بن یمان کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر اور بھلائی کے متعلق سوال کرتے اور میں ان سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر اور بھلائی دی تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور اس میں فساد ہو گا میں نے کہا یہ دخن کیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسی قوم آۓ گی جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرا اختیا کریں گے جسے تو جانے اور انکار کرے گا تو میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے ہوں گے جس نے ان کی مان لی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان کے اوصاف بتائیں تو آپ نے فرمایا وہ ہم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے میں نے کہا کہ اگر میں نے یہ دور پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑ میں نے کہا کہ اگر امام اور جماعت نہ ہوئی تو ؟ تو آپ نے فرمایا : تو ان سب فرقوں سے علیحدگی اختیار کر اگرچہ تجھے درخت کی جڑ ہی کیوں نہ کھانی پڑے حتی کہ تجھے اس حالت میں موت آجائے ۔

تو یہ دور اور زمانہ اس دور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور اور زمانے میں اور جگہ پر عام ہے عہد صحابہ سے لے کر جب عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج اور فتنہ شروع ہوا ۔
اور فتنہ کے دور میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام طبری سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب بھی لوگوں کا امام نہ ہو اور لوگوں میں اختلاف اور جماعتیں ہوں تو شر میں پڑنے کے ڈر سے اگر طاقت رکھو تو فرقوں میں کسی کی پیروی نہ کرو اور سب سے علیحدگی اختیار کرو، تو جب بھی کوئی ایسی جماعت ملے جو حق پر ہو اس میں ملنا چاہیے اور ان کے تعداد میں اضافہ اور حق پر ان کا تعاون کرنا چاہیے کایونکہ یہ جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس شخص اور وقت اور مسلمانوں کی جماعت کا ہے ۔
اور اللہ ہی توفیق بخشنے والا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .

Share:

11/19/19

الفاظ بایوکیمیکل اثرات رکھتے ہیں


 الفاظ بایوکیمیکل اثرات رکھتے ہیں اور ان کو بار بار دہرانے سے زیادہ تعداد اور رفتار سے نیوران استعمال ہوتے ہیں جن سے خاص ہارمونز اور رطوبتیں پیدا ہوتی ہیں جو آپ کے نروس سسٹم پر اثرانداز ہوتی ہیں جن سے جذبات احساسات اور اعتقادات منظم ہوتے ہیں جو آپ کو عمل کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ جب آپ مسلسل منفی  الفاظ اور جملوں کو بار بار استعمال کرتے ہیں تو آپ کے جسم میں گھبراہٹ بے چینی جیسے برے احساسات پیدا ہو جاتے ہیں جو سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر ذہن واپس جسم پر اثر انداز ہوکر مسائل میں شدت پیدا کردیتا ہے۔ آپ نہ ہی الفاظ اور جملوں کو تبدیل کرتے ہیں اور نہ ہی برے احساسات ختم ہوتے ہیں یہ نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے اور دونوں ایک دائرے کی شکل میں میں کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اس طرح روز بروز مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔فرد یہ سوچتا ہے کہ بظاہر اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ کوئی مرض تشخیص ہوتا ہے این ایل پی کا ایک اصول ہے ’’ذہن اور جسم ایک نظام کے دو کل پرزے ہیں ‘‘ مثلاً  آپ کہتے ہیں کہ میں تندرست اور صحت مند نہیں ہوسکتا ،میں یہ کام نہیں کر سکتا یہ بہت مشکل ہے، اس طرح کے جملے آپ کو عمل کرنے سے روک دیں گے ۔اس کے برعکس اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ میں کر سکتا ہوں، یہ بالکل آسان ہے، تو آپ کے اندر عمل کرنے کے لیے قوت پیدا ہوجائے گی۔ یاد رہے گھمبیر  مسائل اس وقت پیش آتے ہیں جب آپ مسلسل منفی الفاظ اور جملوں کو بار بار دہراتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں آپ ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ واقعی زندگی کے حالات بدلنا چاہتے ہیں نفسیاتی مسائل کے حل اور ڈپریشن پر قابو پانے کے متمنی ہیں تو آج ہی دانستہ طور پر مثبت الفاظ کا استعمال شروع کردیں۔

Share:

ظالم سے حفاظت کی دعاء


حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے مجھے ظالم بادشاہ کے پاس اور ہر طرح کے خوف کے وقت پڑھنے کے لیے یہ کلمات سکھائے:
        لَآاِلٰہَ اِلَّا اللہُ الحَلِیْمُ الکَرِیمُ ، سُبحَانَ اللہِ رَبِّ السَّمٰوَاتِ السَّبعِ وَ رَبِّ العَرشِ العَظِیمِ و الحَمدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِینَ۔
              جب بھی کسی ظالم آدمی سے ملنا ہو ، کسی وڈیرے نے بلایا ہو، کسی حاکم سے ملنا ہو ، کسی دشمن کا خوف ہو ، کسی بڑے آدمی کے ظلم کا خوف ہو تو اس کے پاس جانے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیں ان شاء اللہ اس کا خوف  جاتا رہے گا ۔

Share:

ام معبد کے خیمے میں


غار ثور میں تین دن قیام کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا مختصر سا قافلہ یثرب کی طرف روانہ ہوا۔ ایک سانڈنی پر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق سوار تھے اور دوسری سانڈنی پر حضرت عامر بن فہیرہ اور عبد اللہ بن اریقط لیثی ۔ عبد اللہ بن اریقط غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا۔ وہ مکہ سے مدینہ جانے والے تمام راستوں سے بخوبی واقف تھا ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے راستہ بتانے کے لیے اجرت پر ساتھ لے لیا تھا۔ جب یہ مختصر سا قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسماء نے جو کھانا غار سے روانگی کے وقت دیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہو رہی تھی اس لیے یہ مقدس قافلہ ام معبد کے خیمے کے سامنے جا رکا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ام معبد  کی شہرت سن رکھی تھی یہ خوش قسمت عورت اپنی غربت افلاس کے باوجود اپنی عالی حوصلگی اور مہمان نوازی کی وجہ سے اس صحرائی علاقے میں مشہور و معروف تھی اس طرف سے گزرنے والے مسافروں کی گوشت کھجور اور دودھ سے تواضع کرنا اس کا خاص شیوا تھا وہ میزبانی کے یہ فرائض نہایت خوش دلی سے انجام دیتی تھیں جو بھی اس کا مہمان بنتا اس کی زبان پر اس کی تعریف کے کلمات ہوتے بے ساختہ دل سے اس کے لیے دعائیں نکلتیں اس وقت ام معبد اپنے خیمے کے باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کھانے کی کوئی چیز یعنی دودھ گوشت اور کھجور میں سے جو کچھ بھی تمہارے پاس ہو ہمیں دے دو ہم اس کی قیمت ادا کریں گے ان دنوں خوشک سالی نے اس پورے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اس وجہ سے ام معبد کے گھر پر بھی تنگی اور سختی کا وقت آن پڑا تھا مسافر کی یہ بات سن کر ام معبد  کا دل بھر آیا اس نے بڑی حسرت بھرے لہجے میں کہا خدا کی قسم اس وقت میرے گھر میں آپ کو پیش کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہیں اگر ہوتی تو فورا حاضر کردیتی اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا معبد کی ماں اگر اجازت ہو تو اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔ ام معبد نے کہا بڑے شوق سے مگر مجھے امید نہیں کہ وہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے گی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت بکری کی پیٹھ پر پھیرتے ہوئے دعا کی یا اللہ اس عورت کی بکریوں میں برکت دے اس کے بعد آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے بکری ٹانگیں پھیلا کر آرام سے کھڑی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سا برتن لے کر اسے دوہنا شروع کیا جلدہی وہ لبالب دودھ سے بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے یہ دوھ ام معبد کو پلایا اس نے خوب سیر ہو کر پیا پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا اور آخر میں خود پیا اور فرمایا لوگوں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کو دوہنا شروع کیا یہاں تک کہ برتن پھر بھر گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دودھ ام معبد کیلیے چھوڑ کر آگے روانہ ہوگئے ام معبد کا بیان ہے کہ یہ بکری ہمارے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلاف تک رہی اور صبح و شام اس کے دودھ سے ہم اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہے۔
        اس بابرکت قافلے کے تشریف لے جانے کے بعد ام معبد کا شوہر اپنے ریوڑ لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمے میں دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔گھر والی سے پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ ام معبد نے کہا:
        ’’ خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان یہاں آیا تھا ۔ اس نے اس مریل سی بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہو کر پیا اور یہ دودھ ہمارے لیے چھوڑ دیا۔‘‘
        پھر اس واقعے کی پوری تفصیل بیان کی خاوند یعنی ابو معبد نے کہا ذرا اس کا حلیہ تو بیان کرو ۔ ام معبد نے فی البدیع اور بے ساختہ رحمتِ کائناتﷺ کا جو حلیہ بیان کیا ،اسے تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کر لیا ہے۔ ام معبد اس وقت مسلمان نہیں تھی اور نہ ہی وہ ابھی اسلام و ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تھی لیکن اس کی زبان سے نکلے ہوئے جملے اور فقرے عربی ادب کا ایک مایہ ناز شاہکار ہیں۔ عربی مبین کی فصاحت و بلاغت اور صباحت و ملاحت اپنے پورے جوبن پر ہے ۔الفاظ کی خوبصورتی فقرات کی بر جستگی  اور دل نشینی اور خیالات کی سادگی و سلاست نے ام معبد کی اس برجستہ تقریر کو شمائل ِ نبوی کی جتابوں میں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔ اس کی تازگی ، دل کشی اور عطر بینی پہلے بھی مشامِ روح کو معطر کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ رحمۃ للعلمین ﷺ کی رحمت کا یہ فیض خاص ہے کہ آپ ﷺ کے شمائل  بیان کرنے کا یہ تاریخی اعزاز بھی ایک عورت کے حصے میں آیا۔ اردو ادب میں اس تقریر کا ترجمہ کرنے اور اس کا مفہوم اردو میں ڈھالنے کی بے شمار کوششیں ہوئی ہیں، مگر کہاں عربی مبین اور کہاں اس کے مقابلے میں بیچاری اردو، تاہم ذیل میں ہم پہلے اصل عربی عبارت اور پھر اس تقریر کا اردو ترجمہ نقل کرتے ہیں جو مقابلۃ  اصل سے زیادہ قریب ہے۔
قالت أُمِّ مَعْبَدٍ في وصف النبي صلى الله عليه وسلم:رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الوَجْهِ، حَسَنَ الخَلْقِ،لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ، وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ،أَجْمَلُ النَّاسِ، وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ، حُلْوُ المَنْطِقِ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ،إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ.(الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر خروج رسول اللہ ﷺ ، ۱/240)
ترجمہ: میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی نظافت نمایاں، جس کا چہرہ تاباں، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا۔ پاکیزہ اور پسندیدہ خو، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص، نہ پیٹ نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، چہرہ وجیہہ، جسم تنومند، اور قد موزوں تھا۔ آنکھیں سر مگیں ، فراخ اور سیاہ تھیں۔ پتلیاں کالی اور ڈھیلے بہت سفید تھے۔ پلکیں لمبی اور گھنی تھیں۔ ابرو ہلالی، باریک اور پیوستہ ، گردن لمبی اور صراحی دار ، داڑھی گھنی اور گنجان، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے ، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں ۔ کلام شیریں اور واضح ، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی۔ دور سے سنو تو بلند آہنگ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے  تو پر وقار اور تمکین نظر آئے۔ قد نہ درازی سے بد نما اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے۔ لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب ، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب ، دو نرم  و نازک شاخوں کے درمیان ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر ، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش ۔ جب کچھ کہے تو سراپا گوش۔ حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ سب کا مخدوم ، سب کا مطاع ، مزاج میں اعتدال ، تندی اور سختی سے دور۔
        شوہر یہ صفات سن کر پکار اٹھا کہ خدا کی قسم یہ تو وہی قریشی شخص تھا جس کا ذکر ہم سنتے رہتے تھے ۔ میں اس سے ضرور جا کر ملوں گا۔ کچھ عرصے کے بعد دونوں میاں بیوی مدینہ جا کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور سعادت ِایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔

Share:

11/18/19

Main causes of liver damage | Morning breakfast | liver disease

الأسباب الرئيسية المسببة في إتلاف الكبد

1:  النوم المتأخر

2: عدم التبول في الصباح

3: تناول الأطعمة بشراهة

4: عدم تناول إفطار الصباح (Morning breakfast)

5: المبالغة في تناول الأدوية الطبية

6: إستهلاك المواد الحافظة. والملونة والمحليات الاصطناعية

7: إستهلاك الزيوت غير الصحية

8: إستهلاك الأطعمة غير الطازجة أو الأطعمة المقلية المخزنة

The liver is a vital organ in the human body responsible for performing various crucial functions, including detoxification, metabolism, and synthesis of essential proteins. However, it is susceptible to damage from various factors, leading to a condition known as liver damage or Liver Disease. Liver damage can range from mild to severe and may progress over time if not properly addressed. Main causes of liver damage:

1.  Late sleep.

2.  Not to piss in the morning.

3.  Eating food greedily.

4.  Not having morning breakfast.

5.  Excessive use of medical medicines

6.  Consumption of preservatives colorful and artificial local.

7.  Consumption of unhealthy oils

8.  Consumption of non-fresh or stored fried foods.

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive