Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

11/19/19

ام معبد کے خیمے میں


غار ثور میں تین دن قیام کے بعد اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا مختصر سا قافلہ یثرب کی طرف روانہ ہوا۔ ایک سانڈنی پر رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق سوار تھے اور دوسری سانڈنی پر حضرت عامر بن فہیرہ اور عبد اللہ بن اریقط لیثی ۔ عبد اللہ بن اریقط غیر مسلم ہونے کے باوجود ایک قابل اعتماد شخص تھا۔ وہ مکہ سے مدینہ جانے والے تمام راستوں سے بخوبی واقف تھا ۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے راستہ بتانے کے لیے اجرت پر ساتھ لے لیا تھا۔ جب یہ مختصر سا قافلہ قدید کے مقام پر پہنچا تو حضرت اسماء نے جو کھانا غار سے روانگی کے وقت دیا تھا وہ ختم ہو چکا تھا سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس محسوس ہو رہی تھی اس لیے یہ مقدس قافلہ ام معبد کے خیمے کے سامنے جا رکا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ام معبد  کی شہرت سن رکھی تھی یہ خوش قسمت عورت اپنی غربت افلاس کے باوجود اپنی عالی حوصلگی اور مہمان نوازی کی وجہ سے اس صحرائی علاقے میں مشہور و معروف تھی اس طرف سے گزرنے والے مسافروں کی گوشت کھجور اور دودھ سے تواضع کرنا اس کا خاص شیوا تھا وہ میزبانی کے یہ فرائض نہایت خوش دلی سے انجام دیتی تھیں جو بھی اس کا مہمان بنتا اس کی زبان پر اس کی تعریف کے کلمات ہوتے بے ساختہ دل سے اس کے لیے دعائیں نکلتیں اس وقت ام معبد اپنے خیمے کے باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا کھانے کی کوئی چیز یعنی دودھ گوشت اور کھجور میں سے جو کچھ بھی تمہارے پاس ہو ہمیں دے دو ہم اس کی قیمت ادا کریں گے ان دنوں خوشک سالی نے اس پورے علاقے پر قیامت ڈھا رکھی تھی اس وجہ سے ام معبد کے گھر پر بھی تنگی اور سختی کا وقت آن پڑا تھا مسافر کی یہ بات سن کر ام معبد  کا دل بھر آیا اس نے بڑی حسرت بھرے لہجے میں کہا خدا کی قسم اس وقت میرے گھر میں آپ کو پیش کرنے کے لئے کوئی چیز موجود نہیں اگر ہوتی تو فورا حاضر کردیتی اتنے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک مریل سی بکری پر پڑی جو خیمے میں ایک طرف کھڑی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا معبد کی ماں اگر اجازت ہو تو اس بکری کا دودھ دوہ لیں۔ ام معبد نے کہا بڑے شوق سے مگر مجھے امید نہیں کہ وہ دودھ کا ایک قطرہ بھی دے گی رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست شفقت بکری کی پیٹھ پر پھیرتے ہوئے دعا کی یا اللہ اس عورت کی بکریوں میں برکت دے اس کے بعد آسمان نے ایک عجیب منظر دیکھا بکری کے تھن دودھ سے بھر گئے بکری ٹانگیں پھیلا کر آرام سے کھڑی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سا برتن لے کر اسے دوہنا شروع کیا جلدہی وہ لبالب دودھ سے بھر گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے یہ دوھ ام معبد کو پلایا اس نے خوب سیر ہو کر پیا پھر اپنے ساتھیوں کو پلایا اور آخر میں خود پیا اور فرمایا لوگوں کو پلانے والا آخر میں پیتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بکری کو دوہنا شروع کیا یہاں تک کہ برتن پھر بھر گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دودھ ام معبد کیلیے چھوڑ کر آگے روانہ ہوگئے ام معبد کا بیان ہے کہ یہ بکری ہمارے پاس حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عہد خلاف تک رہی اور صبح و شام اس کے دودھ سے ہم اپنی ضرورتیں پوری کرتے رہے۔
        اس بابرکت قافلے کے تشریف لے جانے کے بعد ام معبد کا شوہر اپنے ریوڑ لے کر جنگل سے واپس آیا۔ خیمے میں دودھ سے بھرا برتن دیکھ کر حیران رہ گیا۔گھر والی سے پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ ام معبد نے کہا:
        ’’ خدا کی قسم ایک بابرکت مہمان یہاں آیا تھا ۔ اس نے اس مریل سی بکری کو دوہا۔ خود بھی اپنے ساتھیوں سمیت سیر ہو کر پیا اور یہ دودھ ہمارے لیے چھوڑ دیا۔‘‘
        پھر اس واقعے کی پوری تفصیل بیان کی خاوند یعنی ابو معبد نے کہا ذرا اس کا حلیہ تو بیان کرو ۔ ام معبد نے فی البدیع اور بے ساختہ رحمتِ کائناتﷺ کا جو حلیہ بیان کیا ،اسے تاریخ نے اپنے اوراق میں محفوظ کر لیا ہے۔ ام معبد اس وقت مسلمان نہیں تھی اور نہ ہی وہ ابھی اسلام و ایمان کی دولت سے بہرہ ور ہوئی تھی لیکن اس کی زبان سے نکلے ہوئے جملے اور فقرے عربی ادب کا ایک مایہ ناز شاہکار ہیں۔ عربی مبین کی فصاحت و بلاغت اور صباحت و ملاحت اپنے پورے جوبن پر ہے ۔الفاظ کی خوبصورتی فقرات کی بر جستگی  اور دل نشینی اور خیالات کی سادگی و سلاست نے ام معبد کی اس برجستہ تقریر کو شمائل ِ نبوی کی جتابوں میں ایک منفرد اور ممتاز مقام عطا کر دیا ہے۔ اس کی تازگی ، دل کشی اور عطر بینی پہلے بھی مشامِ روح کو معطر کرتی رہی ہے اور قیامت تک کرتی رہے گی۔ رحمۃ للعلمین ﷺ کی رحمت کا یہ فیض خاص ہے کہ آپ ﷺ کے شمائل  بیان کرنے کا یہ تاریخی اعزاز بھی ایک عورت کے حصے میں آیا۔ اردو ادب میں اس تقریر کا ترجمہ کرنے اور اس کا مفہوم اردو میں ڈھالنے کی بے شمار کوششیں ہوئی ہیں، مگر کہاں عربی مبین اور کہاں اس کے مقابلے میں بیچاری اردو، تاہم ذیل میں ہم پہلے اصل عربی عبارت اور پھر اس تقریر کا اردو ترجمہ نقل کرتے ہیں جو مقابلۃ  اصل سے زیادہ قریب ہے۔
قالت أُمِّ مَعْبَدٍ في وصف النبي صلى الله عليه وسلم:رَأَيْتُ رَجُلًا ظَاهِرَ الوَضَاءَةِ، أَبْلَجَ الوَجْهِ، حَسَنَ الخَلْقِ،لَمْ تَعِبْهُ ثُجْلَةٌ، وَلَمْ تُزْرِيهِ صُعْلَةٌ، وَسِيمٌ قَسِيمٌ، فِي عَيْنَيْهِ دَعَجٌ، وَفِي أَشْفَارِهِ وَطَفٌ، وَفِي صَوْتِهِ صَهَلٌ، وَفِي عُنُقِهِ سَطَعٌ، وَفِي لحْيَتِهِ كَثَاثَةٌ، أَزَجُّ، أَقْرَنُ، إِنْ صَمَتَ فَعَلَيْهِ الوَقَارُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ سَمَاهُ وَعَلَاهُ البَهَاءُ،أَجْمَلُ النَّاسِ، وَأَبْهَاهُ مِنْ بَعِيدٍ، وَأَحْسَنُهُ وَأَجْمَلُهُ مِنْ قَرِيبٍ، حُلْوُ المَنْطِقِ، فَصْلًا لَا نَزْرَ وَلَا هَذَرَ، كَأَنَّ مَنْطِقَهُ خَرَزَاتُ نَظْمٍ يَتَحَدَّرْنَ، رَبْعَةٌ لَا تَشْنَؤُهُ مِنْ طُولٍ، وَلَا تَقْتَحِمُهُ عَيْنٌ مِنْ قِصَرٍ، غُصْنٌ بَيْنَ غُصْنَيْنِ، فَهُوَ أَنْضَرُ الثَّلَاثَةِ مَنْظَرًا، وَأَحْسَنُهُمْ قَدْرًا، لَهُ رُفَقَاءُ يَحُفُّونَ بِهِ،إِنْ قَالَ سَمِعُوا لِقَوْلهِ، وَإِنْ أَمَرَ تَبَادَرُوا إِلَى أَمْرِهِ، مَحْفُودٌ مَحْشُودٌ، لَا عَابِسَ، وَلَا مُفَنِّدَ.(الطبقات الکبری لابن سعد، ذکر خروج رسول اللہ ﷺ ، ۱/240)
ترجمہ: میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کی نظافت نمایاں، جس کا چہرہ تاباں، اور جس کی ساخت میں تناسب تھا۔ پاکیزہ اور پسندیدہ خو، نہ فربہی کا عیب نہ لاغری کا نقص، نہ پیٹ نکلا ہوا، نہ سر کے بال گرے ہوئے، چہرہ وجیہہ، جسم تنومند، اور قد موزوں تھا۔ آنکھیں سر مگیں ، فراخ اور سیاہ تھیں۔ پتلیاں کالی اور ڈھیلے بہت سفید تھے۔ پلکیں لمبی اور گھنی تھیں۔ ابرو ہلالی، باریک اور پیوستہ ، گردن لمبی اور صراحی دار ، داڑھی گھنی اور گنجان، سر کے بال سیاہ اور گھنگھریالے ، آواز میں کھنک کے ساتھ لطافت، بات کریں تو رخ اور ہاتھ بلند فرمائیں ۔ کلام شیریں اور واضح ، نہ کم سخن اور نہ بسیار گو، گفتگو اس انداز کی جیسے پروئے ہوئے موتی۔ دور سے سنو تو بلند آہنگ، قریب سے سنو تو دلفریب ، کلام نہ طویل نہ بے مقصد بلکہ شیریں، جامع اور مختصر، خاموشی اختیار کرے  تو پر وقار اور تمکین نظر آئے۔ قد نہ درازی سے بد نما اور نہ اتنا پستہ کہ نگاہ بلند تر پر اٹھے۔ لوگوں میں بیٹھے تو سب سے جاذب ، دور سے نظریں ڈالیں تو بہت با رعب ، دو نرم  و نازک شاخوں کے درمیان ایک شاخِ تازہ جو دیکھنے میں خوش منظر ، چاند کے گرد ہالے کی طرح رفیق گرد و پیش ۔ جب کچھ کہے تو سراپا گوش۔ حکم دے تو تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جائیں۔ سب کا مخدوم ، سب کا مطاع ، مزاج میں اعتدال ، تندی اور سختی سے دور۔
        شوہر یہ صفات سن کر پکار اٹھا کہ خدا کی قسم یہ تو وہی قریشی شخص تھا جس کا ذکر ہم سنتے رہتے تھے ۔ میں اس سے ضرور جا کر ملوں گا۔ کچھ عرصے کے بعد دونوں میاں بیوی مدینہ جا کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوئے اور سعادت ِایمانی سے بہرہ مند ہوئے۔

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive