فرصت
جو ملے آنا کبھی بادِ صبا ہو کر
ہم
پلکیں بچھا دیں گے راہوں میں فدا ہو کر
شمع
میری زندگی کی بجھنے کو ہے دیکھو تو
تم
حالتِ نزع میں آنا نا ہوا ہو کر
تقدیر
نے کھیل ایسا ہے کھیلا میرے سنگ یہ
خوشیاں
بھی تیری آئیں مری سمت سزا ہو کر
بیمارِ
محبت ہوں نہ چھیڑو طبیبو تم
کہہ
دو مرے دلبر سے آ جانا دوا ہو کر
تم
روٹھ کے جانا نا مہمان ہیں دو پل کے
تم
جیت گئے بازی ہم ہار ے قضا ہو کر
کوئی
جھوٹی تسلی تم دینا نا ہمیں جانا
کیوں
آئے گا پنچھی پھر پنجرے سے رہا ہو کر
ہر
آن رہی سر پر منڈلاتی اجل جاناں
رہے
وعدہ وفا کرتے کیا کیا نہ کیا ہو کر
ہے مل کے بچھڑ جانا تقدیر معینیؔ کی
کیوں تم سے کریں شکوہ ہم تم سے جدا ہو کر
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You