Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

11/29/23

ضعیف حدیث | خبر مردود | ضعیف حدیث کا حکم

ضعیف  (خبر مردود)

ایسی خبر کس کے عدم ثبوت پر کوئی دلیل قائم ہو جائے

رد حدیث کے اسباب: دو ہیں

۱: سند میں انقطاع

۲: راوی میں طعن

اسی کو ضعیف حدیث بھی کہتے ہیں

ضعیف کی اصطلاحی تعریف

ایسی حدیث جس میں حسن کی بھی شرائط پوری نہ ہوں۔

ضعیف کے دراجات

۱: راویوں کے ضعف میں کمی بیشی کے لحاظ سے ضعیف حدیث کے ضعف میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔، بعض روایات ضعیف اور بعض ضعیف جدا اور بعض منکر ہوتی ہیں۔

ضعیف کی بد ترین قسم موضوع ہے۔ضعف کی مثال : لایسئل رجل فیما ضرب امراۃ

ضعیف کو روایت کرنے کا حکم

۱: بہتر تو یہ ہے کہ ضعیف روایت کو بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔

۲:اگر بیان کرنے کی ضرورت ہو تو ضعف کی بھی صراحت کی جائے۔

۳: ضعیف کو بیان کرتے ہوئے یوں نہ کہیں کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا) بلکہ یوں کہیں کہ ( رسول اللہ ﷺ سے روایات یا بیان کیا جاتا ہے)

ضعیف روایت کو بیان کرنے میں تساہل کا انجام

۱: ضعیف کا دائرہ وسیع ہو کر جھوٹی احادیث تک پہنچ جاتا ہے

۲: ضعیف اور موضوع روایات پر بعض شرعی احکام کااثبات

۳: لوگوں پر ان کے دین کے معاملات کو خلط ملط کر دینا

۴: بدعات کا پھیلاؤ

ضعیف حدیث پر عمل کا حکم

جن امور پر علماء کا اتفاق

عقائد اور اصول کے معاملے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں

شدید ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں جیسا کہ موضوع حدیث

 جن امور پر علماء کا اختلاف ہے

جو حدیث کم ضعیف ہو اور احکام اور فضائل سے متعلق ہو تو اس حوالے سے علماء کے تین اقوال ہیں:

۱: مطلقا ضعیف پر عمل جائز ہے کیوں کہ ضعیف حدیث بہر حال لوگوں کی رائے سے تو بہتر ہے۔

۲: ضعیف حدیث پر عمل نہ تو فضائل اور نہ ہی احکام میں جائز ہے ۔کیوں کہ صحیح احادیث میں ہی کفایت موجود ہے۔

۳: فضائل میں ضعیف پر عمل جائز  لیکن احکام میں جائز نہیں اس کی تین شرائط ہیں:

                             ۱:ضعف شدید نہ ہو

                             ۲: کسی معمول بہ اصل کے تحت آتی ہو

                             ۳: اس پر عمل کے وقت اس کے ثبوت کا نہیں بلکہ احتیاط کا عقیدہ رکھیں

راجح قول:  مطلقا ضعیف حدیث پر عمل سے روکنے والوں کا موقف قابل ترجیح ہے، اس کی وجوحات یہ ہیں:

          ۱: کیوں کہ ضعیف روایات اور من گھڑت روایات کو بیان کرنے والے سے متعلق وعید سخت آئی ہے۔ (جس نے میری طرف جھوٹی بات

 منسوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے)

۲: صحیح حدیث میں ہی ضعیف سے کفایت موجود ہے۔

۳: علوم حدیث سے لوگوں کی معرفت کم ہونے کے باعث صحیح اور ضعیف میں تمییز کرنا ممکن نہیں

۴: اس طریقے سے بدعات کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔

مشہور کتب:  تین طرح کی کتب ہیں

۱: ایسی کتب جو ضعیف راویوں کے بیان سے متعلق لکھی گئی ہوں جیسے کتاب      الضعفاء از ابن حبان

۲: ایسی کتب جو ضعیف حدیث کی کسی خاص قسم پر لکھی گئی ہوں جیسے                         مراسیل  از ابو داود اور         علل از دار قطنی

۳: متفرق اور دیگر کتب: جو صرف موضوع روایات پر لکھی گئی ہوں : جیسے    الفوائد المجموعہ از امام شوکانی

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

11/20/23

ہر لحظہ بہ شكلے بتِ عيار بر آمد، دل برد و نہاں شد | وحدۃ الوجود پر کلام رومی


 

ہر لحظہ بہ شكلے بتِ عيار بر آمد، دل برد و نہاں شد

ہر دم بہ لباس دگر آں يار بر آمد، گہہ پير و جواں شد

 ہر لحظہ وہ بتِ عیار ایک نئی ہی شکل میں ظاہر ہوتا ہے،دل چھینتا ہے اور غائب ہو جاتا ہے۔ ہر دم وہ یار دوسروں کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے، کبھی بوڑھے کے روپ میں اور کبھی جوان کے۔

خود کوزہ و خود کوزہ گر و خود گلِ کوزہ، خود رندِ سبوکش

خود بر سرِ آں کوزہ خریدار برآمد، بشکست رواں شد

 وہ خود ہی کوزہ ہے، خود ہی کوزہ بنانے والا اور خود ہی کوزہ کی مٹی اور خود ہی کوزہ توڑ دیا اور چل دیا۔ خود وہ اس پیالے کا خریدار بن کر آتا ہے، اور اسے  توڑ کر چلا جاتا ہے۔

نے نے كہ ہمو بود كہ می آمد و می رفت، ہر قرن كہ ديدے

تا عاقبت آں شكلِ عرب وار برآمد، دارائے جہاں شد

نہیں ، نہیں ! وہی تھا جو ہر زمانے میں آتا رہا اور جاتا رہا کہ جسے ہر زمانے  نے دیکھا۔ لیکن با لآخر وہ ایک عرب کی شکل میں ظاہر ہوا اور وہی جہان کے بادشاہ ہیں۔

نے نے كہ ہمو بود كہ می گفت اناالحق، در صوت الٰہی

منصور نبود آں كہ بر آں دار برآمد، ناداں بہ گماں شد

 نہیں ، نہیں !وہی تھا کہ جس نے کہا کہ میں ہی حق ہوں، خدا کی آواز میں۔ وہ منصور نہیں تھا جو سولی پر ظاہر ہوا، نادان اور نہ جاننے والوں کو یہی لگتا ہے کہ وہ منصور تھا۔

حقا کہ ہم او بود کہ اندر یدِ بیضا، می کرد شبانی

در چوب شد و بر صفتِ مار برآمد، زاں فخرِ کیاں شد

 وہی تھا کہ یدِ بیضا کے روپ میں تھا، بھیڑ بکریاں چراتا تھا۔ پھر وہ لکڑی (لاٹھی) بنا اور سانپ کی شکل میں برآمد ہوا اور بادشاہوں کا افتخار بنا۔

می گشت دمی چند بریں روئے زمین او، از بہر تفّرج

عیسیٰ شد و بر گنبدِ دوّار برآمد، تسبیح کناں شد

 اس نے کچھ عرصہ زمین پر سیر کی، تفریح کے لئے۔ عیسیٰ ہوا اور آسمان پر چلا گیا، تسبیح پڑھتا ہوا۔

منسوخ چہ باشد نہ تناسخ کہ حقیقت، آں دلبرِ زیبا

شمشیر شد و در کفِ کرّار برآمد، قتّالِ زماں شد

 اس نے منسوخ کیا یا وہ تناسخ تھا یا خوبرو دلبر کی حقیقت تھا۔ تلوار بنا اور حضرت علی کرّار کی شکل اختیار کی اور ایک بڑے ہجوم کو قتل کیا۔

رومیؔ سخنِ كفر نگفتہ است و نگويد، منكر نشويدش

كافر بود آں كس كہ بہ انكار برآمد، از دوزخياں شد

 رومیؔ نے کبھی کفر کی بات نہیں کی اور نہ وہ کرتا ہے، وہ منکر نہیں ہے۔ کافر تو وہ ہے جس نے انکار کیا تھا یعنی شیطان اور وہی دوزخیوں میں سے ہے۔

Share:

11/18/23

فارسی اشعار | کلام | حکیم ثنائی کلام | صوفیانہ فارسی اشعار


 

شب کہ چشمم بر جمالِ یار بود

من باخواب و بختِ من بےدار بود

 

دیدہ مش باخود بہم آمیختہ

شکر از لب در دہانم ریختہ

گفتم اے جانِ من و جانانِ من

دردِ پنہانانِ من و درمانِ من

آتشِ عشقِ تو جانم سوختہ

روز بر راہ تو دیدہ دوختہ

 

گفت اے مجنونِ من فرہادِ من

عاشقی! اے عاشقِ ناشادِ من

دل بر او یابد کہ دل را خوں کند

دید لیلی دیدۂِ مجنوں کند

 

 

خشک تار و خشک چوب و خشک پوست

از کجا می آید ایں آواز دوست

نے ز تار و نے ز چوب و نے ز پوست

خود بہ خود می آید ایں آواز دوست

 


Share:

what is nlp course | introduction of nlp | natural language processing | nlp services | Neuro-Linguistic Programming (NLP)

Neuro-Linguistic Programming (NLP) is an approach to communication, personal development, and Psychotherapy that was created in the 1970s. It was developed by Richard Bandler and John Grinder, who claimed that there is a connection between neurological processes, language, and behavioral patterns that have been learned through experience. NLP is often used as a tool for personal development, communication skills, and therapeutic techniques. Here are some key aspects of NLP:

Presuppositions of NLP: NLP is based on several presuppositions or assumptions about human behavior. These include ideas such as "The map is not the territory" (meaning our perception of reality is not reality itself), "People respond to their own experiences, not to reality itself," and "People make the best choices they can with the resources available to them."

Representational Systems: NLP suggests that individuals have preferred sensory channels through which they take in information, known as representational systems. These systems include visual (sight), auditory (hearing), kinesthetic (touch and feeling), olfactory (smell), and gustatory (taste). NLP explores how individuals represent their experiences through these systems and how understanding these preferences can enhance communication.

Anchoring (Anchoring Psychology): Anchoring is a technique used in NLP to associate a particular stimulus or state with a specific response. This can be used to change or enhance emotional states. For example, creating an anchor such as touching your thumb and forefinger together when you feel confident, then later using that touch to recall the confident state.

Meta-Model and Milton Model: NLP includes language models such as the Meta-Model and the Milton Model. The Meta-Model is used to challenge and expand limited beliefs and perceptions by asking specific questions that clarify and specify information. The Milton Model, on the other hand, involves the use of vague language patterns to induce trance and encourage individuals to explore their own unconscious thoughts and feelings.

Swish Pattern: The Swish Pattern is an NLP technique used to change undesirable behaviors or thought patterns into more positive ones. It involves creating a mental image of the undesired behavior and then replacing it with a more positive and compelling image.

Mirroring and Matching: NLP emphasizes the importance of rapport-building through techniques like mirroring and matching. Mirroring involves subtly mimicking the other person's non-verbal behaviors, such as posture and gestures, to create a sense of connection.

Submodalities: NLP explores the finer distinctions within our sensory modalities (submodalities) to understand how individuals mentally code their experiences. For example, how one represents a positive memory might differ in submodalities from how they represent a negative memory.

It's important to note that while some people find value in the principles and techniques of NLP, the scientific community has been critical of its theoretical foundations and the lack of empirical evidence supporting its claims. As a result, opinions on the effectiveness of NLP vary, and it is often considered a Controversial field. Individuals interested in NLP should approach it with a critical mindset and may find it beneficial to explore various perspectives on the topic.

 

erickson nlp

 

Share:

11/17/23

Gender Role in Islam | Equality in Spirituality | Modesty and Dress Code | Men and Women in Islam

 

Gender Role in Islam

In Islam, the concept of gender roles is outlined in the Quran and the Hadith (sayings and actions of Prophet Muhammad, peace be upon him). The understanding of gender roles in Islam emphasizes the complementary nature of men and women, recognizing that they have different roles and responsibilities while being equal in the sight of Allah. Here are some key aspects of gender roles in Islam:

Equality in Spirituality: Islam emphasizes the spiritual equality of men and women. In the Quran, it is mentioned that both men and women have the same spiritual essence and are accountable for their deeds. The Quran states in Surah Al-Ahzab (33:35): "Indeed, the Muslim men and Muslim women, the believing men and believing women, the obedient men and obedient women, the truthful men and truthful women, the patient men and patient women, the humble men and humble women, the charitable men and charitable women, the fasting men and fasting women, the men who guard their private parts and the women who do so, and the men who remember Allah often and the women who do so — for them Allah has prepared forgiveness and a great reward."

Distinct Roles and Responsibilities: While Islam emphasizes equality, it also recognizes the biological and psychological differences between men and women. The Quran acknowledges that men and women may have different roles and responsibilities based on their natural dispositions. For example, in Surah An-Nisa (4:34), there is a reference to men being protectors and maintainers of women.

Family Structure: The family is considered the basic unit of society in Islam, and both men and women play crucial roles in its formation and maintenance. Men are recognized as the providers and protectors of the family, while women are acknowledged as caretakers and educators. The Quran encourages mutual consultation and cooperation between spouses in matters of family and decision-making.

Modesty and Dress Code: Islam promotes modesty in both men and women. There are specific guidelines for the dress code for men and women, with the Quran calling on both genders to lower their gaze and guard their modesty. The concept of hijab (modest dress) is often associated with Muslim women, emphasizing the importance of covering certain parts of the body.

Economic Rights: Islam grants women economic rights, and they are entitled to own, inherit, and manage their wealth independently. Men, as the primary breadwinners, are responsible for providing financial support to their families.

Educational Rights: Islam encourages the pursuit of knowledge for both men and women. The Prophet Muhammad (peace be upon him) emphasized the importance of seeking knowledge for all Muslims, regardless of gender. There are numerous examples of female scholars and educators in Islamic history.

It's important to note that interpretations of gender roles in Islam can vary among scholars and cultural contexts. The principles of justice, equity, and compassion underlie Islamic teachings on gender roles, aiming to establish a balanced and harmonious society.


Share:

رد و قبول کے اعتبار سے حدیث کی اقسام | صحیح حدیث کی اقسام | صحیح لذاتہ | صحیح لغیرہ | حسن لذاتہ | حسن لغیرہ

رد و قبول کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

دو اقسام ہیں          ۱: مقبول            ۲: مردود

مقبول کی دو اقسام ہیں        ۱: مقبول معمول بہ             ۲:مقبول غیر معمول بہ

مقبول معمول بہ کی چار اقسام ہیں : ۱: صحیح لذاتہ    ۲:حسن لذاتہ       ۳: صحیح لغیرہ       ۴: حسن لغیرہ

1: صحیح لذاتہ:

          صحیح لذاتہ ایسی حدیث کی روایت جس میں صحیح حدیث کی تمام شرائط پائی جائیں۔ صحیح حدیث کی شرائط درج ذیل ہیں:

۱: اتصال سند :  سند متصل ہو سند کے کسی بھی طبقے میں انقطاع نہ ہو

۲: عدالت:      یعنی راوی عادل ہو کسی بھی قسم کے طعن سے پاک ہو، مسلمان، عاقل ، بالغ اور گناہوں سے بچنے والا متقی ہو اور اعلی اخلاق کا مالک

                   ہو۔

۳:ضبط تام:       راوی کا حافظہ محفوظ ہو ، ضبط تام ہو خواہ ضبط بالصدر ہو یا ضبط بالکتابت ہو۔

۴: عدم شذوذ:  روایت اشذ نہ ہو۔ یعنی ثقہ اپنے سے اوثق کی مخالفت نہ کرے

۵: عدم علت:   وہ حدیث معلول نہ ہو ،علت  ایسی خفیہ خرابی کو کہتے ہیں جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ وہحدیث اس سے محفوظ اور

                   سالم نظر آتی ہے۔

صحیح حدیث کا حکم: محدثین کا اتفاق ہےکہ اس پر عمل کرنا لازم ہے۔

صحیح حدیث کی اولین کتب:  صحیح بخاری از محمد بناسماعیل بخاری، صحیح مسلم  از امام مسلم

نوٹ:            صحیح بخاری  ،صحیح مسلم سے زیادہ صحیح اور زیادہ فوائد پر مشتمل ہے ، بخاری و مسلم نے نہ تمام صحیح احادیث کا احاطہ کیا ہے اور نہ اس کا

                   التزام کیا ہے۔لہذا باقی صحیح احادیث ہم دیگر مستند کتب احادیث سے حاصل کر سکتے ہیں جیسے کہ سنن اربعہ وغیرہ۔

2: حسن لذاتہ

          یہ صحیح لذاتہ ہی ہے صرف اس میں راوی کے ضبط میں کچھ کمی ہوتی ہے۔

حسن لذاتہ کا حکم:           یہ بھی حجت میں صحیح کی ہی طرح ہے اگرچہ مرتبہ میں اس سے کم ہے۔

حدیث حسن صحیح کا مفہوم : (حدیث حسن سے کیا مراد ہے؟)

          ۱: اگر تو اس حدیث کی دو سندیں ہوں تو پھر مراد یہ ہے کہ وہ ایک سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور دوسری کے اعتبار سے حسن ہے۔

          ۲: اگر ایک ہی سند ہے تو پھر مطلب یہ ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک صحیح ہے اور بعض کے نزدیک حسن ہے۔

3:صحیح لغیرہ

          در اصل یہ حسن لذاتہ ہی ہے، جبکہ وہ اپنے جیسی یا اپنے سے قوی ایک دوسری سند سے بھی مروی ہو۔

مرتبہ:  یہ درجہ میں حسن لذاتہ سے بلند اور صحیح لذاتہ سے کم ہے  (مثال: اگر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک  کرنے کا حکم دے دیتا)

حکم :   مقبول اور قابل حجت ہے۔

4: حسن لغیرہ

          یہ دراصل ضعیف روایت ہے ، جبکہ وہ متعدد اسناد سے مروی ہو۔ اور اس کے ضعف کا سبب راوی کا کذب یا فسق نہ ہو۔

مرتبہ:  حسن لغیرہ حسن لذاتہ سے مرتبے میں کم ہے، لہذا جب ان دونوں کا تعارض آ جائے تو حسن لذاتہ کو ترجیح دی جائے گی۔

مثال:  ابن عمر نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے ساتھ دوران سفر نماز ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھیں ۔ امام ترمذی

 نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ایک دوسری سند کی وجہ سے۔

حکم :    یہ بھی مقبول اور قابل حجت ہے۔

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

11/16/23

راویوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کی اقسام | حدیث متواتر | حدیث مشہور | حدیث عزیز | حدیث غریب

راویوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کی اقسام:

رایوں کی تعداد کے لحاظ سے حدیث کی دو اقسام ہیں : ۱: متواتر  ۲: آحاد

1: متواتر کی تعریف:

 جس حدیث کو اتنی بڑی جماعت روایت کرے کہ جن کا جھوٹ پر جمع ہونا عادتا محال ہو ۔

شرائط:

۱:  اس کے راویوں کی تعداد بہت زیادہ ہو کم از کم 10 ہوں ۔

۲: راویوں کی یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے ۔

۳: ان سب کا جھوٹ پر جمع ہونا محال ہو علاقے مختلف ہونے کی وجہ سے جنس مختلف ہونے کی وجہ سے اور مذاہب مختلف ہونے کی وجہ سے۔

۴:  اس خبر کی بنیاد حسی ہو عقل نہ ہو جیسا کہ راضی کہیں ہم نے دیکھا یا ہم نے سنا۔

اقسام: اس کی دو اقسام ہیں ۱: لفظی  ۲: معنوی

متواتر لفظی : جو لفظی اور معنوی طور پر ثابت ہو مثال: جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے 70 سے زیادہ صحابہ کرام نے بیان کیا ہے۔

 متواتر معنوی: جو معنوی طور پر ثابت ہو جیسا کہ دعا میں ہاتھ اٹھانے سے متعلقہ احادیث ہیں۔

متواتر کا حکم:  یقینی علم کا فائدہ دیتی ہے کہ جس کی صحت کو تسلیم کرنا انسان کی مجبوری ہے جیسا کہ اس نےکوئی کام اپنی انکھوں سے دیکھا ہو۔

 کتاب:  الاظہار المتناثرہ فی الاخبار المتواترہ از  جلال الدین سیوطی

 

2: آحاد:  

واحد کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایک ایسی خبر جسے کوئی ایک شخص روایت کرے ۔اصطلاحی طور پر ایسی روایت جس میں متواتر کی شرائط جمع نہ ہوں۔

 آحاد کا حکم: نظری علم کا فائدہ دیتی ہے نظری علم کا مطلب جس میں تحقیق کی ضرورت ہو اگر وہ حدیث صحیح ثابت ہو جائے تو اس پر عمل بھی واجب ہوتا ہے۔

آحاد اور متواتر میں فرق:  متواتر میں تحقیق کی ضرورت نہیں مگر آحاد میں تحقیق کی ضرورت ہے اگر ثابت ہو جائے تو عمل واجب ہے۔

احاد کی اقسام: اس کی تین اقسام ہیں:

 ۱:  غریب:

          ایسی روایت جسے بیان کرنے میں کوئی راوی اکیلا رہ جائے ۔اس کی دو اقسام ہیں غریب مطلق اور غریب نسبی

 غریب مطلق:  یعنی جس روایت کو بیان کرنے میں کوئی صحابی اکیلا رہ جائے ۔مثلا  إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ (صحیح بخاری:1) حضرت عمر اسے بیان کرنے میں اکیلے ہیں۔

 غریب نصبی:  یعنی ایسی روایت جس کو صحابی کے علاوہ کوئی اور شخص روایت کرنے میں اکیلا رہ جائے جیسے حدیث مبارک ہے ‘‘نبی مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم مکہ

میں داخل ہوئے توآپ ﷺ کے سر پر خود تھا (متفق علیہ)’’  اس کو روایت کرنے میں امام زہری اکیلے ہیں۔

 

۲: عزیز :

وہ حدیث جسے روایت کرنے والے سند کے کسی طبقے میں دو راوی رہ گئے ہوں۔ مثال حدیث مبارک  لا يُؤْمِنُ أحدُكم حتى أَكُونَ أَحَبَّ إليه مِن وَلَدِه، ووالِدِه، والناس أجمعين (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)(متفق علیہ) اس روایت کو انس سے قتادہ اور عبدالعزیز بن صہیب نے روایت کی ہے۔

۳:  مشہور:

 جس کو روایت کرنے والے کم از کم تین یا اس سے زیادہ ہوں جیسے حدیث مبارک ہے ‘‘اللہ تعالی علم کو بندوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا(متفق علیہ)’’  اس حدیث کو بیان کرنے والے چار صحابہ ہیں عبداللہ بن عمرو،  زیاد بن لبید ، حضرت عائشہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنھم

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

اختتام سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام | حدیث قدسی | حدیث مرفوع | حدیث موقوف | حدیث مقطوع

اختتام سند کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

۱: قدسی ۲:  مرفوع ۳: موقوف  ۴:مقطوع

1: حدیث قدسی:

حدیث قدسی کی تعریف: اس سے مراد وہ حدیث ہے کہ جس میں نبی کریم ﷺ کوئی بات اللہ تعالی کی طرف منسوب کر رہے ہوں۔

روایت کے الفاظ کچھ اس طرح ہوتے ہیں : ۱: قال اللہ تعالی    ۲:فیما یرویہ عن ربہ    ۳: فیما روی عن اللہ

مثال : قال رسول اللہ قال اللہ تعالی انا اغنی الشرکاء

حدیث قدسی اور قرآن مجید میں فرق:

۱: قرآن مجید میں جبریل علیہ السلام کا واسطہ شرط ہے، جبکہ حدیث قدسی میں ایسی کوئی شرط نہیں ہے

  ۲؛ قران مجید سارے کا سارا متواتر ہے جبکہ حدیث قدسی میں صحیح بھی ہیں اور ضعیف بھی ہیں۔

  ۳: قراان مجید کی اجر و ثواب کی نیت سے تلاوت کی جاتی ہے جبکہ حدیث قدسی کی تلاوت نہیں کی جاتی ۔

  ۴: قرآن مجید لفظی اور معنوی طور پر اللہ تعالی کا کلام ہے جبکہ حدیث قدسی میں معنی اللہ تعالی کی طرف سے اور الفاظ نبی کریم ﷺکی طرف سے ہوتے ہیں۔

حدیث قدسی پر چند کتب:

۱:  الاتحاف السنیّۃ بالاحادیث القدسیہ مصنفہ عبد الرووف مناوی

۲: الصحیح المسند من الاحادیث القدسیہ مصنفہ  مصطفے عدوی

2: حدیث مرفوع:

وہ حدیث جس کی سند رسول اللہ ﷺ تک پہنچتی ہو ، اس کی چار اقسام ہیں :

قولی : جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر مبنی ہو۔(راوی براء بن عازب رضی اللہ عنہ ''جب تم سجدہ کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو(زمین پر)رکھو اور اپنی دونوں کہنیوں کو (زمین سے) بلند رکھو۔''صحیح مسلم)

فعلی: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل پر مبنی ہو۔ (راوی مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی کے بالوں،پگڑی اور موزوں پر مسح کیا۔صحیح مسلم)

تقریری : صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین کا وہ فعل یا قول جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوا اور آپ نے اسے برقرار رکھا یا آپ علیہ السلام کے سامنے کسی کے عمل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ۔۔یعنی منع نہیں کیا۔ (راوی قیس رضی اللہ عنہ بن عمرو بن سہل انصاری ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو فرمایا''صبح کی نماز تو دو رکعت ہے'' اس آدمی نے جواب دیا:''میں نے فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی تھیں،لہٰذا اب پڑھ لی ہیں۔''تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔۔سنن ابی داود)

وصفی: وہ حدیث جس میں نبی کریم ﷺ کے کسی وصف کا بیان ہو۔

مرفوع کی ایک تقسیم اس طرح بھی کی جاتی ہے: مرفوع حقیقی   مرفوع حکمی

مرفوع حکمی سے مراد ایسی روایت ہے جو حکمی طور پر مرفوع ہو۔

3: حدیث موقف:

ہر وہ قول یا فعل یا تقریر جو صحابی کی طرف منسوب ہو 

اقسام و امثلہ:

موقوف قولی: صحابی کا قول جیسا کہ : حضرت علی ؓ کا فرمان( لوگوں سے وہی بیان کرو جس کو وہ سمجھتے بھی ہوں)

موقوف فعلی: صحابی کا فعل جیسا کہ امام بخاری ؒ نے نقل فرمایا ہے: حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ نے امامت کروائی اور وہ حالت تیمم میں

تھے۔

موقوف تقریری: جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنھما  ساحل سمندر پر آباد لوگوں کو نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے دیکھتے

تھے اور ان پر کوئی عیب نہیں لگاتے تھے۔

لفظا موقوف حکما مرفوع: حقیقت میں حدیث موقوف ہے لیکن حکما مرفوع ہوتی ہے:

1: ایسی حدیث /صحابی کا ایسا قول جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو جیسا کہ صحابی کی سابقہ اقوام ، مستقبل کے حالات کی خبر دینا یا ماضی

کے واقعات کی خبر دینا۔۔

2: صحابی کا ایسا فعل جس میں اجتہاد کی گنجائش نہ ہو جیسے حضرت علی ؓ کی حدیچ کہ آپ نے نماز کسوف میں ہر رکعت میں دو سے  زیادہ

رکوع کیے۔

3: صحابی کا قول کہ ہم ایسا کرتے تھے /ہم ایسے کہا کرتے تھے۔ اگر تو وہ عہد نبوی کی طرف منسوب کریں تو حکما مرفوع ہے اگر وہ

ایسی نسبت نہ کریں تو موقوف ہی ہے۔ ہم اور ہماری عورتیں ایک ہی برتن میں وضوع کر لیا کرتے تھے۔ ہم جب چڑھائی

چڑھتے تو اللہ اکبر کہتے تھے۔

4: صحابی کا قول جو کہ  امرنا کذا نھینا عن کذا  او من السنۃ کذا پر مشتمل ہو۔

5: تابعی کا قول : صحابی سے روایت کرتے ہوئے وہ ایسے کہیں : یرفعہ ، یبلغ بہ  روایۃ ، وہ بھی مرفوع ہو گی۔

6: صحابی کی ایسی تفسیر جو کسی آیت کے شانِ نزول سے متعلق ہو جیسے حضرت عائشہ فرماتی ہیں  کسی آدمی کے زیرِ کفالت کوئی یتیم بچی ہوتی اور اس کی ملکیت میں کھجور کا ایک درخت بھی ہوتا تو وہ اس سےنکاح کر لیتے تھے جب کہ اس سے کوئی الفت و محبت نہیں ہوتی تھی تو پھر یہ آیت نازل ہوئی:  وَ  اِنْ  خِفْتُمْ  اَلَّا  تُقْسِطُوْا  فِی  الْیَتٰمٰى  فَانْكِحُوْا  مَا  طَابَ  لَكُمْ  مِّنَ  النِّسَآءِ  مَثْنٰى  وَ  ثُلٰثَ  وَ  رُبٰعَۚ-فَاِنْ  خِفْتُمْ  اَلَّا  تَعْدِلُوْا  فَوَاحِدَةً  اَوْ  مَا  مَلَكَتْ  اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ  اَدْنٰۤى  اَلَّا  تَعُوْلُوْا (سورۃ  النساء :3) اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان عورتوں سے نکاح کرو جو تمہیں پسند ہوں ،دو دو اور تین تین او ر چار چار پھر اگر تمہیں اس بات کا ڈرہو کہ تم انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک (سے نکاح کرو) یا لونڈیوں (پر گزارا کرو) جن کے تم مالک ہو۔ یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔

 

موقوف کی حجیت:

1: اصل میں حکم واجب نہیں ۔

 2: اگر یہ روایت صحیح ثابت ہو جائیں تو  بعض ضعیف روایت کو تقویت پہنچا دیتی ہیں۔

 3:اگر یہ مرفوع کے حکم میں ہو تو ان پر مرفوع کی طرح ہی عمل کرننا لازم ہے۔

4: حدیث مقطوع:

        ہر وہ قول یا فعل جو کسی تابعی یا تابعی سے نچلے درجے والے کی طرف منسوب ہو

اقسام اور مثالیں:

1: مقطوع قولی: جیسا کہ بدعتی سے متعلق حسن بصری کا قول : آپ نمناز پڑھ لیں اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا

2: مقطوع فعلی: مسروق رحمۃ اللہ علیہ : اپنے اور اپنے گھر والوں کے درمیان پردہ لٹکا لیتے اور پھر اپنی نماز کی طرف متوجہ ہو جاتے

تھے اور انہیں اور ان کی دنیا کو چھوڑ دیتے تھے۔

مقطوع اور منقطع میں فرق: مقطوع کاتعلق متن سے ہے جبکہ منقطع کا تعلق سند سے ہے ( یعنی مقطوع سے مراد ہے کہ وہ حدیث یا حدیث کے الفاظ کی نسبت تابعی یا اس سے نچلے طبقے والے کی طرف منسوب ہے اور منقطع سے مراد ہے کہ حدیث کی سند میں کہیں کوئی راوی ساقط ہو گیا ہے یعنی سند میں انقطاع آ گیا ہے)

مقطوع کی حجیت:

مقطوع احکام میں کچھ بھی حجیت نہیں کیوں کہ یہ مسلمانوں میں سے ہی کسی کا کلام ہے اور فعل ہے ۔اگر وہاں کوئی ایسا قرینہ پایا جاتا ہو جو اس کے مرفوع ہونے پر دلالت کرے تو تب یہ مرفوع مرسل کے حکم میں ہو گی ۔ تابعی کا ایسا کہ جس میں یَرْفَعُہ یَبْلُغُ بِہٖ یا رِوَایَۃ کے الفاظ ہوں تو یہ مرفوع مرسل کی طرف اشارہ ہیں۔

موقوف اور مقطوع روایات پر مشتمل کتب :

 1: مصنف عبد الرزاق لامام عبد الرزاق

2: مصنف ابن ابی شیبہ لامام ابن ابی شیبہ

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive