Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

11/17/23

رد و قبول کے اعتبار سے حدیث کی اقسام | صحیح حدیث کی اقسام | صحیح لذاتہ | صحیح لغیرہ | حسن لذاتہ | حسن لغیرہ

رد و قبول کے اعتبار سے حدیث کی اقسام:

دو اقسام ہیں          ۱: مقبول            ۲: مردود

مقبول کی دو اقسام ہیں        ۱: مقبول معمول بہ             ۲:مقبول غیر معمول بہ

مقبول معمول بہ کی چار اقسام ہیں : ۱: صحیح لذاتہ    ۲:حسن لذاتہ       ۳: صحیح لغیرہ       ۴: حسن لغیرہ

1: صحیح لذاتہ:

          صحیح لذاتہ ایسی حدیث کی روایت جس میں صحیح حدیث کی تمام شرائط پائی جائیں۔ صحیح حدیث کی شرائط درج ذیل ہیں:

۱: اتصال سند :  سند متصل ہو سند کے کسی بھی طبقے میں انقطاع نہ ہو

۲: عدالت:      یعنی راوی عادل ہو کسی بھی قسم کے طعن سے پاک ہو، مسلمان، عاقل ، بالغ اور گناہوں سے بچنے والا متقی ہو اور اعلی اخلاق کا مالک

                   ہو۔

۳:ضبط تام:       راوی کا حافظہ محفوظ ہو ، ضبط تام ہو خواہ ضبط بالصدر ہو یا ضبط بالکتابت ہو۔

۴: عدم شذوذ:  روایت اشذ نہ ہو۔ یعنی ثقہ اپنے سے اوثق کی مخالفت نہ کرے

۵: عدم علت:   وہ حدیث معلول نہ ہو ،علت  ایسی خفیہ خرابی کو کہتے ہیں جو حدیث کی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ وہحدیث اس سے محفوظ اور

                   سالم نظر آتی ہے۔

صحیح حدیث کا حکم: محدثین کا اتفاق ہےکہ اس پر عمل کرنا لازم ہے۔

صحیح حدیث کی اولین کتب:  صحیح بخاری از محمد بناسماعیل بخاری، صحیح مسلم  از امام مسلم

نوٹ:            صحیح بخاری  ،صحیح مسلم سے زیادہ صحیح اور زیادہ فوائد پر مشتمل ہے ، بخاری و مسلم نے نہ تمام صحیح احادیث کا احاطہ کیا ہے اور نہ اس کا

                   التزام کیا ہے۔لہذا باقی صحیح احادیث ہم دیگر مستند کتب احادیث سے حاصل کر سکتے ہیں جیسے کہ سنن اربعہ وغیرہ۔

2: حسن لذاتہ

          یہ صحیح لذاتہ ہی ہے صرف اس میں راوی کے ضبط میں کچھ کمی ہوتی ہے۔

حسن لذاتہ کا حکم:           یہ بھی حجت میں صحیح کی ہی طرح ہے اگرچہ مرتبہ میں اس سے کم ہے۔

حدیث حسن صحیح کا مفہوم : (حدیث حسن سے کیا مراد ہے؟)

          ۱: اگر تو اس حدیث کی دو سندیں ہوں تو پھر مراد یہ ہے کہ وہ ایک سند کے اعتبار سے صحیح ہے اور دوسری کے اعتبار سے حسن ہے۔

          ۲: اگر ایک ہی سند ہے تو پھر مطلب یہ ہے کہ بعض محدثین کے نزدیک صحیح ہے اور بعض کے نزدیک حسن ہے۔

3:صحیح لغیرہ

          در اصل یہ حسن لذاتہ ہی ہے، جبکہ وہ اپنے جیسی یا اپنے سے قوی ایک دوسری سند سے بھی مروی ہو۔

مرتبہ:  یہ درجہ میں حسن لذاتہ سے بلند اور صحیح لذاتہ سے کم ہے  (مثال: اگر مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو ہر نماز سے پہلے مسواک  کرنے کا حکم دے دیتا)

حکم :   مقبول اور قابل حجت ہے۔

4: حسن لغیرہ

          یہ دراصل ضعیف روایت ہے ، جبکہ وہ متعدد اسناد سے مروی ہو۔ اور اس کے ضعف کا سبب راوی کا کذب یا فسق نہ ہو۔

مرتبہ:  حسن لغیرہ حسن لذاتہ سے مرتبے میں کم ہے، لہذا جب ان دونوں کا تعارض آ جائے تو حسن لذاتہ کو ترجیح دی جائے گی۔

مثال:  ابن عمر نے فرمایا: نبی کریم ﷺ کے ساتھ دوران سفر نماز ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور اس کے بعد بھی دو رکعتیں پڑھیں ۔ امام ترمذی

 نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے ایک دوسری سند کی وجہ سے۔

حکم :    یہ بھی مقبول اور قابل حجت ہے۔

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive