Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

7/16/19

judge yourself love others

کامیابی کے بارے میں ہم جب بھی بات کرتے ہیں یا سوچتے ہیں تو  آج کی جدید سوچ  کامیابی کا انحصار ایک اچھا گھر، اچھی گاڑی، بینک بیلنس، تھوڑا سا نام اور شہرت  پر کرتی ہے ۔ ہم مغرب کو اپنی ترقی کا ماڈل اور نمونہ بناتے ہیں۔ اور چونکہ ہم مغرب گئے نہیں تو ہمیں پتا نہیں کہ وہ کتنے غیر مطمئن ہیں اس  چیز سے جو انہوں نے حاصل کر لی ہے۔ہمیں بہت زیادہ چیزیں بدلنے کی جلدی ہے اور اتنی جلدی کرتے ہیں کہ  اگر ٹب میں پانی بدلنا ہو تو ٹب میں بیٹھے ہوئے بچے کو بھی پانی کے ساتھ  باہر پھینک دیتے ہیں۔ اس بچے کو مت پھینکیے جو آپ کے اندر موجود ہے۔ اپنی سوچ کے زاویے کو بدلیے کیونکہ یہ جو کامیابی کی مادی سوچ ہے اس کے ساتھ ایک چیز متعلق ہے  اور وہ ہے مقابلہ بازی اور مسابقت، کامیابی کا تصور ہو سکتا ہے آپ کے نزدیک ڈھیروں دولت کمانا ہے اس میں آپ سلطان آف برونائی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر رہے ہوتے اور کامیابی کا سٹینڈرڈ یہ ہے اور اس میں آپ کا  مقابلہ ایم بی اے (شخص) کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ آپ  مقابلہ اپنے  اردگرد کے لوگوں کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں۔  اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے خاندان کے ساتھ اپنے ہمسایوں کے ساتھ  اپنے کولیگز کے ساتھ اور اپنے ہوم ورکرز کے ساتھ ۔ مقابلے میں ایک چیز یاد رکھی جائے کہ کوئی جیتتا ہے اور کوئی ہارتا ہے اسی لیے انسان بحث نہیں چھوڑتے دوست چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک چیز جو یاد رکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ :
                        انسان اس روئے زمین پر اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلیے نہیں پیدا کیا گیا۔
            یہ مقصد نہیں کہ انسان فلاں ، فلاں سے مقابلے کرے زمیں پر،  نہیں بلکہ انسان کو شیطان سے مقابلہ کرنے کیلیے بھیجا گیا ہے  انسان سے مقابلے کیلیے نہیں بھیجا گیا ۔ انسان جب انسان سے مقابلے پر آتا ہے تو یاد رکھیے کہ دوسرا انسان بھی اللہ تعالی کی ہی جماعت کا بندہ ہے ۔ انسان اللہ کے جماعت کا بندہ ہے اسی لیے تو فرشتوں سے کہا کہ انسان کو سجدہ کرے ۔ تو آپ اللہ تعالی کی جماعت کے بندے ہیں اور جب ایک ہی جماعت کے بندے ایک دوسرے سے لڑنے لگتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے یہ کوئی آزمائش ڈالی ہے ۔۔۔۔ اوہ نہیں  یار۔۔۔ آپ خود کوئی غلطی کر رہے ہیں ۔ ہم یہاں انسانوں سے مقابلے کیلیے نہیں آئے  جب بھی آپ انسانوں سے مقابلہ کرتے ہیں آپ اپنے رشتوں میں ایک عجیب سے کیفیت پیدا کر دیتے ہیں اور بہت سی ایسی چیزیں  متأثر ہو جاتی ہیں ۔ ہوتا کیا ہے؟ یہ جو مقابلہ ہے یہ آپ کی انا کو مضبوط کرتا ہے اور جو آپ کے کام ہیں اور عمل ہیں ، وہ بنیادی طور پر ردِ عمل ہوتے  ہیں  وہ action  نہیں ہوتا وہ reaction  ہوتا ہے ۔ ہم بحیثیت  ایک ملک و قوم کے ایک جوابی عمل کرنے والا معاشرہ  ہیں  ہمیں 2005 میں ہونے والہ زلزلہ چاہیے اکٹھا ہونے کے لیے اپنی ہمدردی دکھانے کے لیے ہم کسی سانحہ کا انتظار کرتے ہیں تو تبھی جاگتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے حیات مبارکہ کا یہ ایک پہلو  کہ آپ ﷺ کبھی بھی  Reactive  نہیں تھے  آپ ﷺ نے کسی چیز پر  جوابی عمل   نہیں کیا ہے۔ ہمیشہ عمل  کیا ہے ۔ کہ ایک عورت آپ ﷺ پر غلاظت پھینکتی ہے اگر آپ پر بھی کوئی پھینکتا ہے تو آپ چاہے جتنے بھی اچھے انسان ہیں ایک کوفت سے تو گزریں گے  ، ایک    مشقت تو ہے ۔ تو نبی اکرم ﷺ ، اور نہ ہی مکہ میں وہ ایک گلی ہے ، آپ باقاعدگی سے اسی وقت میں اسی گلی سے ہی گزرتے ہیں اور کوئی آپ جوابی عمل  نہیں کرتے ۔ اور جب وہ نہیں پھینکتی تب بھی آپ ﷺ react  نہیں کرتے کہ سکون ہو گیا کہ آج تو خیر نہیں پھینکا گیا ۔ تب بھی آپﷺ اس کی عیادت کے لیے جا رہے ہیں یعنی آپ ﷺ ایک اور عمل کر رہے ہیں ۔ سیدنا علی کرم اللہ وجھہ ایک عمل کر رہے ہیں کہ دشمن کی چھاتی پر بیٹھے ہیں اور تلوار ہاتھ میں ہے اور وہ دشمن تھوک پھینکتا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ جوابی عمل نہیں کرتے بلکہ ایک عمل کرتے ہیں کہ میں اس کے سینے سے اٹھ جاتا ہوں وہ شخص جو زندگی کے خطرے پر بھی اسلام قبول نہیں کر رہا تھا  وہ اس عمل سے اسلام قبول کر لیتا ہے۔ تو جوابی عمل کرنے والے اگر آپ رہیں گے تو یقین مانیے کہ آپ کا  جوابی عمل جو بھی آپ کریں گے وہ اتنا ہی زندہ اور پائدار ہو گا جتنا کہ اگلا عمل ہوتا ہے ۔
            تو دو باتیں ہیں جو آپ نے کرنی ہیں ایک یہ کہ آپ نے اپنی ذات کو دیکھنا ہے کسی دوسرے کو نہیں  اور دوسری بات یہ کہ اپنے آپ سے پیار نہیں کرنا دوسروں سے کرنا ہے۔
You judge yourself not other
You love other not yourself

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی کی چند باتیں۔۔۔۔

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive