Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

6/21/25

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا | Iran vs izrael war 2025 | Prof Dr Muhammad Shahbaz Manj

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

 تحریر: پروفیسر ڈاکٹرمحمد شہباز منج

 ایران ازرایل جنگ کے پہلے تین چار دنوں کی صورت حال یہ تھی کہ ایران کی جانب سے   کوئی بیچ کا راستہ نکال کر  سیز فائر  کرنے کی کئی بار درخواست کی گئی  مگر بدمعاش ریاستوں نے اس درخواست کو رعونت سے  ٹھکرا دیا۔ اب صورت حالات یکسر الٹ ہو چکی ہے، ازرائلی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اپنے ایرانی ہم منصب سے سیز فائر کی درخوست کرتے ہیں اور وہ آگے سے کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے امریکی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے کہیں وہ ہم سے بات کریں۔ جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ کو امریکہ سے بات کا  کہا جاتاہے تو وہ کہتے ہیں امریکہ خود ہم سے بات کرے، ہم اس سے کیوں بات کریں! حالات  کا یہ پھیرجسے قرآن کی زبان میں ""تلک الایام نداولھا بین الناس" اور  "و مکروا و مکرا للہ واللہ خیر الماکرین"  "  کا مصداق کہا جا سکتا ہے،  زمین پر دنیاے اسباب میں کیسے رونما ہوا؟ آیے اس پر ایک نظر ڈالتے  ہیں: جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل نے روایتی جنگی اصولوں کی بجائے ہائبرڈ وارفیئر (Hybrid Warfare) کے منصوبے کو اپناتے ہوئے ایران کو بے بس کرنے کی کوشش کی۔ میزائل حملوں کے ساتھ ساتھ موساد نے ایران کے اندرونی حلقوں میں اپنے ایجنٹس اور سہولت کاروں کی مدد سے ایسی خفیہ کارروائیاں انجام دیں جن کا مقصد ایران کی دفاعی کمان کو مفلوج کرنا تھا۔ان کارروائیوں میں خاص طور پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کے سینئر افسران، اسٹریٹجک مشیروں اور حساس ایٹمی تنصیبات میں کام کرنے والے سائنس دانوں کو ٹارگٹ  کیا گیا، جس  کے نتیجے میں متعدد اہم افسران اور سائنس دان شہید ہوئے۔ ایران کے سیکیورٹی اداروں نے تسلیم کیا کہ ان حملوں میں اندرونی معاونت بھی شامل تھی۔ ان حملوں  کے نتیجے میں ایک طرف بین الاقوامی میڈیا میں یہ بیانیہ مضبوط ہوا کہ ایران داخلی طور پر کمزور ہو چکا ہے، اور اسے میدانِ جنگ میں شکست دینا آسان ہو گا۔ دوسری طرف ایران  نے بھی خاصا دباؤ محسوس کیا۔ ان حالات میں ابتدائی تین چار دنوں میں دنیا کو لگا کہ ایران اس جنگ کو جاری نہیں رکھ پائے گا۔ ازرائیلی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں یہ تاثر شدت سے اُبھارا گیا کہ ایران کا ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے اور اب صرف ایک آخری دھچکا باقی ہے۔ اسی تاثر کے تناظر میں ازرائل اور امریکہ  رعونت  اور تکبر کی انتہاؤں کو چھو رہے تھے۔ ٹرمپ  صاحب  ٹویٹ فرما رہے تھے کہ ہمیں  معلوم ہے خامنہ ای کہاں ہیں، لیکن ہم انھیں فی الحال مارنا نہیں چاہتے۔ ایران کی فضاؤں پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے،  ایران کو" غیر مشروط سرنڈر" کرنا ہوگا۔ ان متکبرانہ دھمکیوں نے ایران پر واضح کر دیا کہ پسپائی کا نتیجہ مکمل تباہی ہے ۔  چناں چہ ایران نے تدبیر، صبر اور حکمت کے ساتھ جوابی حکمتِ عملی ترتیب دی۔ ازرائیل کے حساس مقامات پر مسلسل اور متواتر حملوں کے ذریعے ازرائیل  کودفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا۔

 اسی دوران میں عالم اسباب میں کئی دیگر  اہم عوامل بھی کاررفرما ہوئے: روس نے اعلان کیا کہ اس کے کئی سو ماہرین ایرانی ایٹمی تنصیبات میں کام کر رہے ہیں، اور ان پر حملہ روس  پر حملہ تصور ہوگا۔ یہ بیان امریکہ اور اسرائیل کے لیے "ریڈ لائن" بن گیا۔ امریکہ میں امن پسند طبقات، لبرل میڈیا، اور ری پبلکنز سمیت کئی سینیٹرز نے کھلے عام ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ ازرائیل کے لیے جنگ لڑنے کا مطلب امریکی عوام کو غیر ضروری تباہی میں دھکیلنا ہے۔ روس، چین اور کچھ یورپی آوازوں نے ایران کے خلاف جنگی عزائم کی مخالفت کی، جس سے ایران کو عالمی سفارتی سطح پر بھی اخلاقی برتری حاصل ہوئی۔ ان حالات نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اور ابھی کل ہی  ٹرمپ  نے جو بیان دیا ہے کہ ہم دو ہفتے میں جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے، یہ فی الواقع پسپائی اور  ازرائل کی مدد سے ہاتھ کھینچنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ امریکا براہ راست اس جنگ میں شریک نہیں ہوگا، اور اسے اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ازرایل کی محبت کے سوا۔ اور اب  منظرنامہ، جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا، یہ ہے کہ سیز فائر کی وہ درخواست، جو چند دن قبل ایران کر  رہا تھا، آج ازرائیل کی طرف سے آ رہی ہے۔ ازرائیل نہ صرف جنگی دباؤ میں ہے بلکہ اس کی عسکری اور خفیہ ناکامیاں اس کے بین الاقوامی  رعب و دبدبے کو بھی بری طرح مجروح کر رہی ہیں۔ از رایل کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ ایران کی کمزور شرائط پر سیز فائر کی درخواست مان لیتا ، لیکن اس نے اپنی حماقت اور ٹرمپ کی آشیرباد کے سہارے یہ موقع ضائع کر دیا، اور اپنی سخت شرائط پر سیز فائر پر اصرار کرتا رہا ۔دوسری طرف قدرت نے اسی کو ایران کے لیے ایک غیر معمولی اپرچونٹی بنا دیا، اب وہ اپنے حق میں پہلے سے بہت بہتر شرائط پر سیز فائر کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ وقت کی گردش دیکھیے وہی ٹرمپ جو چند دن قبل ایران کو "کچے کے ڈاکوؤں" کی طرح دھمکیاں دے رہا تھا،  اب ایک غیر جانب دار فریق کے لہجے میں کہہ رہا ہے  ہمار اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں، ہم ثالثی سے اس مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہیں، اور ان دعووں اور کو ششوں کے ذریعے اپنے نوبل امن انعام  کے خوابوں میں گم ہو رہا یے۔  ایسے ہی مواقع کے لیے کہتے ہیں: یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔



Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive