سورۃ الانفال کی دو
آیات اور حالت جنگ میں نصیحتیں
يَآ اَيُّـهَا
الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اِذَا لَقِيْتُـمْ فِئَةً فَاثْبُـتُـوْا وَاذْكُرُوا
اللّـٰهَ كَثِيْـرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (45)
اے ایمان
والو! جب کسی فوج سے ملو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم نجات
پاؤ۔
وَاَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَلَا
تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْهَبَ رِيْحُكُمْ ۖ وَاصْبِـرُوْا ۚ اِنَّ
اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ (46)
اور اللہ
اور اس کے رسول کا کہا مانو اور آپس میں نہ جھگڑو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری
ہوا اکھڑ جائے گی، اور صبر کرو، بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ان آیات میں بیان کردہ حالت جنگ
میں قرآنی نصیحتیں
1: ثَبات و استقامت
اختیار کرو "فَاثْبُتُوا"
جب
دشمن سے آمنا سامنا ہو تو گھبراہٹ یا کمزوری نہ دکھاؤ، مضبوطی اور ثابت قدمی ہی
کامیابی کی بنیاد ہے۔ اسلامی
جدوجہد میں کامیابی کی پہلی شرط استقامت ہے۔ میدان جنگ ہو یا فکری محاذ، گھبراہٹ
اور پیچھے ہٹنا شکست کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو حکم دیتا ہے کہ جب
دشمن سے آمنا سامنا ہو تو ثابت قدم رہو۔ یہ
ثبات، دل و دماغ کو مضبوط بناتا ہے اور قیادت کو اعتماد بخشتا ہے۔
2: اللہ کا کثرت سے ذکر کرو "وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا"
ذکرِ الٰہی سے دل
کو طاقت اور سکون ملتا ہے، اور ایمان تازہ ہوتا ہے۔ میدانِ عمل میں اللہ کو یاد
رکھنا ایمان کا مظہر ہے۔ فتح و نصرت کا تعلق محض ظاہری وسائل سے نہیں بلکہ دل کی
روحانی کیفیت سے بھی ہے۔ اللہ تعالی کا کثرت سے ذکر، مومن کے دل کو سکون، زبان کو
سچائی اور عمل کو اخلاص عطا کرتا ہے۔ ذکر الہی انسان کا اللہ تعالی سے تعلق اور اس
پر اعتماد اور توکل میں اضافہ کرتا ہے۔
3: اللہ
اور رسول کی مکمل اطاعت کرو "وَأَطِيعُوا اللَّهَ
وَرَسُولَهُ"
کامیابی تب ہی ممکن ہے جب افراد نظم و اطاعت کا
مظاہرہ کریں۔ نافرمانی اور انارکی قوموں کو تباہ کر دیتی ہے۔ کسی بھی
جماعت یا تحریک کی کامیابی نظم و اطاعت سے مشروط ہے۔ جب افراد قیادت کی رہنمائی پر
اعتماد کرتے ہیں اور نظم کے پابند ہوتے ہیں تو اجتماع میں قوت پیدا ہوتی ہے۔ اسلامی
تحریک میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سب سے مقدم ہے۔اللہ اور اس کے رسول کی
اطاعت کے حکم سے ایک پہلو یہ بھی نکلتا ہے کہ موقع پر جو لیڈر اور راہنما ہو اس کی
اطاعت اور فرماں برداری ضروری ہے گویا حالت جنگ میں اپنے لیڈر کی اطاعت کو لازمی
قرار دیا گیا ہے ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لیڈر ایسا مشکل فیصلہ کرتا ہے جو
ماتحت کو قبول نہیں ہوتا یا ماتحت کی رائے کے مخالف ہوتا ہے تو اس کیفیت میں بھی
لیڈ رکے حکم کا ماننا اور اس کی فرماں برداری کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
4: آپس
میں جھگڑا مت کرو "وَلَا تَنَازَعُوا"
اختلاف،
گروہ بندی اور جھگڑے شکست کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ اتحاد و اتفاق ہر جدوجہد کی روح
ہے۔ داخلی
اختلاف اور باہمی نزاع کسی بھی قوم یا تحریک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتا ہے۔ قرآن
خبردار کرتا ہے کہ اگر تم جھگڑو گے تو تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی۔ اتحاد ہی ہر کامیابی کی بنیاد ہے۔اس نصیحت میں ایک پوشیدہ امر یہ بھی ہے
کہ انسانوں میں فکری ، نظریاتی ، سیاسی ، معاشرتی
اور انتظامی اختلافات کا ہونا فطرتی امر ہے، جنگی حالات میں اپنے ان سیاسی
معاشرتی اختلافات کو پس پشت ڈالنے اور ان سے گریز کرنے کی خاص نصیحت کی جا رہی ہے
کہ دشمن کے سامنے اتحاد کا معاملہ کرو اور اپنا اتفاق دکھاو ورنہ تمہاری ہوا اکھڑ
جائے گی اور تمہارا رعب جاتا رہے گا ، اس طرح دشمن تم پر حاوی ہو گا اور تمہارا
شیرازہ بکھر جائے گا۔
5: صبر
کو اپنا شعار بناؤ "وَاصْبِرُوا"
کامیاب ہونے کے لیے مشکلات پر صبر، قربانی، اور
وقت کا انتظار ضروری ہے۔ اللہ کی مدد صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صبر
صرف مصیبت پر برداشت کا نام نہیں، بلکہ یہ قربانی، تسلسل، اور وقت کے انتظار کا
نام ہے۔ دینی جدوجہد میں تاخیر، مشکلات، مخالفت اور قربانیاں سب آتی ہیں، لیکن صبر
انہیں کامیابی میں بدل دیتا ہے۔صبر ہی انسان کو اچھے وقت میں اچھا فیصلہ کرنے کی
صلاحیت اور ضمانت فراہم کرتا ہے ، عموما ایسا ہوتا ہے کہ انسان افراتفری میں اور
جلد بازی میں غلط فیصلہ کر بیٹھتا ہے جس کا نقصان معلوم ہونے پر پچھتانا پڑتا ہے ،
اس لیے صبر کی تلقین کی گئی ہے کہ عقلمندی کا مظاہرہ کیا جائے صبر سے کام لیا
جائے۔
نصیحتوں
پر عمل کے فوائد
1: کامیابی کی ضمانت: ’’لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ‘‘
اللہ تعالیٰ نے ان احکام کے فوراً بعد یہ وعدہ فرمایا:
"لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" یعنی تاکہ تم کامیاب ہو سکو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان اصولوں پر عمل
پیرا ہونا اللہ کی طرف سے کامیابی کی کنجی ہے۔ یہ کامیابی صرف دنیاوی فتح تک محدود
نہیں بلکہ دینی، روحانی اور اُخروی فلاح کو بھی شامل ہے۔
2: ذات
باری تعالی کی معیت : ’’ اِنَّ
اللّـٰهَ مَعَ الصَّابِـرِيْنَ ‘‘
صبر
کے بدلے اللہ تعالیٰ اپنی خاص معیت اور نصرت کا وعدہ فرماتا ہے۔ یہ وہ معیت ہے جو عموما
تمام انبیائے کرام علیھم السلام اور بالخصوص حضرت موسیٰؑ، حضرت ابراہیمؑ اور نبی
کریم ﷺ جیسے جلیل القدر انبیاء کو حاصل رہی ہے۔ اگر ایک مومن ان قرآنی اصولوں پر
عمل کرتا ہے تو وہ بھی اس الٰہی معیت کے مستحق بن سکتا ہے، جو ہر اندھیرے کو روشنی
اور ہر کمزوری کو قوت میں بدل دیتی ہے۔
نوٹ : اس
وقت پاکستان کے جنگی حالات میں ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے قرآنی
اصولوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں تا کہ اللہ تعالی کی مدد و نصرت ہمارے شامل
حال ہو اور ہم دشمن کے مقابلے میں سرخرو ہوں۔
ہمارے
کرنے والے کام
ü
اتحاد کو قائم
رکھیں : اپنے سیاسی اور معاشرتی معاملات
کو چھوڑ دیں
ü
جھوٹی خبریں نہ
پھلائیں:
ü
اپنے سکیورٹی
اداروں پر بھروسا رکھیں
ü
خود سے عسکری
تجزیہ نگار نہ بنیں
ü
لوگوں میں خوف و
ہراس نہ پھیلائیں
ü
حوصلہ شکنی والی
باتوں اور امور سے باز رہیں
کافر ہے تو شمشیر
پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ
بھی لڑتا ہے سپاہی
کافر ہے تو ہے
تابعِ تقدیر مسلماں
مومن ہے تو وہ آپ
ہے تقدیر الٰہی
مَیں نے تو کِیا
پردۂ اسرار کو بھی چاک
دیرینہ ہے تیرا
مَرضِ کور نگاہی
علامہ اقبال
نور خدا ہے کفر کی
حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ
چراغ بجھایا نہ جائے گا
فضائے بدر پیدا کر
فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں
گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مولانا ظفر علی
خان
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You