Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

11/16/22

سورۃ البقرہ کا تعارف | سورہ بقرہ کے فضائل | سورہ بقرہ کے نام | soorah baqara ka taaruf

سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ قران مجید میں  پہلے پارے سے شروع ہو رہی ہے۔ اس سورت میں دو سو چھیاسی (286) آیات اور چالیس (40) رکوع ہیں۔ سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی زمانے میں نازل ہوئی۔سورۃ البقرہ قرآن مجید کی طویل ترین سورت ہے۔  اس سورت میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا تذکرہ ہے جس وجہ سے اس سورت کا نام سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ رکھا گیا ہے۔ اس سورت کے چند نام اور بھی احادیثِ مبارکہ میں ملتے ہیں۔

۱:       سنام القرآن

۲:       فسطاط القرآن

۳:       ذروۃ القرآن

۴:       سید القرآن

فضائل:

          سُوْرَۃُ الْبَقَرَہِ میں عبادات اور معاملات سے متعلق احکام بیان ہوئے ہیں اس سورت کا سیکھنا بہت فضیلت والا عمل ہے۔ ذیل میں چند ایک احادیث مبارکہ ذکر کی جارہی ہیں:

1:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنْفِرُ مِنْ الْبَيْتِ الَّذِي تُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ (صحیح مسلم:1824(

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ، شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے ۔‘‘

2:      أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ قَالَ مُعَاوِيَةُ بَلَغَنِي أَنَّ الْبَطَلَةَ السَّحَرَةُ۔(صحیح مسلم:1874(

حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :’’ قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن ( حفظ و قراءت اور عمل کرنے والوں ) کا سفارشی بن کر آئے گا ۔ دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی دو ڈاریں ہوں ، وہ اپنی صحبت میں ( پڑھنے اور عمل کرنے ) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی ۔ سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرنا باعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔‘‘ معاویہ نے کہا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ باطل پرستوں سے ساحر ( جادوگر ) مراد ہیں

3:      النَّوَّاسَ بْنَ سَمْعَانَ الْكِلَابِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلُ عِمْرَانَ وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ قَالَ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا ( صحیح مسلم: 1876)

حضرت نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے ایسے لوگوں کو لایا جائے گا جو اس پر عمل کرتے تھے ، سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران ان کے آگے آگے ہوں گی ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ان سورتوں کے لیے تین مثالیں دیں جن کو ( سننے کے بعد ) میں ( آج تک ) نہیں بھولا ، آپ نے فرمایا :’’ جیسے وہ دو بادل ہیں یا دو کالے سائبان ہیں جن کے درمیان روشنی ہے یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑنے والے پرندوں کی دو ٹولیاں ہیں ، وہ اپنے صاحب ( صحبت میں رہنے والے ) کی طرف سے مدافعت کریں گی

4:      عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    مَنْ قَرَأَ الْآيَتَيْنِ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي لَيْلَةٍ كَفَتَاهُ  ۔(جامع ترمذی : 2881)

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رات میں سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اس کے لیے کافی ہو گئیں“

5:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    لِكُلِّ شَيْءٍ سَنَامٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ سَنَامَ الْقُرْآنِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيهَا آيَةٌ هِيَ سَيِّدَةُ آيِ الْقُرْآنِ هِيَ آيَةُ الْكُرْسِيِّ 

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے ۱؎ اور قرآن کی چوٹی سورۃ البقرہ ہے، اس سورۃ میں ایک آیت ہے یہ قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے اور یہ آیت آیۃ الکرسی ہے“۔ (جامع ترمذی : 2878)

6:      عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏    بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا مَعَكَ يَا فُلَانُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَمَعَكَ سورة البقرة ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سورة البقرة إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ وَاقْرَءُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِئَ عَلَى مِسْكٍ   (جامع ترمذی:2876)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گنتی کے کچھ لشکری بھیجے  ( بھیجتے وقت )  ان سے  ( قرآن )  پڑھوایا، تو ان میں سے ہر ایک نے جسے جتنا قرآن یاد تھا پڑھ کر سنایا۔ جب ایک نوعمر نوجوان کا نمبر آیا تو آپ نے اس سے کہا: اے فلاں! تمہارے ساتھ کیا ہے یعنی تمہیں کون کون سی سورتیں یاد ہیں؟ اس نے کہا: مجھے فلاں فلاں اور سورۃ البقرہ یاد ہے۔ آپ نے کہا: کیا تمہیں سورۃ البقرہ یاد ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ تم ان سب کے امیر ہو“۔ ان کے شرفاء میں سے ایک نے کہا: اللہ کے رسول! قسم اللہ کی! میں نے سورۃ البقرہ صرف اسی ڈر سے یاد نہ کی کہ میں اسے  ( نماز تہجد میں )  برابر پڑھ نہ سکوں گا۔ آپ نے فرمایا: ”قرآن سیکھو، اسے پڑھو اور پڑھاؤ۔ کیونکہ قرآن کی مثال اس شخص کے لیے جس نے اسے سیکھا اور پڑھا، اور اس پر عمل کیا اس تھیلی کی ہے جس میں مشک بھری ہوئی ہو اور چاروں طرف اس کی خوشبو پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے اسے سیکھا اور سو گیا اس کا علم اس کے سینے میں بند رہا۔ اس تھیلی کی سی ہے جو مشک بھر کر سیل بند کر دی گئی ہو“۔ 

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive