Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

9/26/23

انکار حدیث | نبی کریم ﷺکی پیشین گوئی | انکار حدیث کا مقصد | استخفاف حدیث

انکار حدیث کا مختصر تعارف:

        امت مسلمہ کے علمی سرمایہ مین دو اہم اور بنیادی ماخذ ، قرآن مجید اور حدیث نبوی ﷺ ہیں۔ قرآن مجید اللہ تعالی کاکلام ہے جو کہ نبی کریم ﷺ پر نازل ہوا اور احادیث مبارکہ نبی کریم ﷺ کے الفاظ ہیں جو کہ اللہ تعالی کی مرضی و منشاء کے مطابق زبان رسالت ماٰب ﷺ سے ادا ہوئے۔ قرآن مجید  کا انکار کبھی بھی کسی بھی مسلمان کہلانے والے کے لیے ممکن نہیں رہا ۔ البتہ احادیث نبویہ میں لوگوں نے خود کو مسلمان کہلاتے ہوئے یہ جسارت کی ، بعضوں نے کلی طور پر انکار کیا ا وربعضوں نے جزوی طور پر یعنی بالخصوص خلاف عقل احادیث کا انکار کیا ۔انکار حدیث کے حوالے سے دو ادوار بہت اہم ہیں کہ جن میں احادیث نبویہ کا انکار کیا گیا آگے چل کر اس کی وضاحت کی جائے گی۔نبی کریم ﷺ نے فتنہ انکار حدیث کی نشاندہی کرتے ہوئے پیشین گوئی فرمائی تھی ۔

نبی کریم ﷺکی پیشین گوئی :

          ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ لَا نَدْرِي، ‏‏‏‏‏‏مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ. (سنن ابی داود:: 4605)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تم میں سے کسی کو اپنے تخت پر ٹیک لگائے ہرگز اس حال میں نہ پاؤں کہ اس کے پاس میرے احکام اور فیصلوں میں سے کوئی حکم آئے جن کا میں نے حکم دیا ہے یا جن سے روکا ہے اور وہ یہ کہے: یہ ہم نہیں جانتے، ہم نے تو اللہ کی کتاب میں جو کچھ پایا بس اسی کی پیروی کی ہے۔

انکارا حدیث حدیث کا زمانہ:

دوسری صدی ہجری اور تیرھویں صدی ہجری

انکار حدیث کا مقصد:

          ۱: حدیث کو غیر ضروری قرار دینا

          ۲: قرآن مجید کو حدیث سے الگ کرنا

          ۳: خود ساختہ افکار امت میں پھیلانا

          ۴: صرف قرآن مجید کے ساتھ وابسطہ ہونے کا دل فریب جھانسہ دینا

دوسری صدی ہجری:

          ۱: خوارج: جنگ صفین کے موقع پر ظاہر ہوئے اور صرف اللہ تعالی کی حاکمیت کا نعرہ لگایااور انسانی حکم بنانا کفر قرار دیا۔ ان کے انکار حدیث کی وجہ انتہا پسندانہ نظریات ہیں جو حدیث کی موجودگی میں ناقابل عمل ہیں۔ جیسے

۱: کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے۔

۲: رجم کا نکار کیوں کہ قرآن مجید میں حکم نہیں ہے

۳: خبر واحد کا نکار کیا کہ اس میں غلطی کا امکان ہے اور جس میں غلطی کا امکان ہو وہ حدیث کیسے ہو سکتی ہے۔

۲:معتزلہ: چونکہ ہی اہل سنت کےعقائد سے منحرف ہوئے  ہوئے اور الگ ہوئے اس لیے انہیں معتزلہ کہا گیا ۔ واصل بن عطا اس کا بانی ہے اور یہ یونانی فلسفے سے متاثر تھا جس کی وجہ سے عقل کو نقل پر ترجیح دی۔ صفات باری تعالی کا انکار کیا ۔اور یہ دعوی کیا کہ اللہ تعالی خالق ِ شر نہیں ہے۔

۳: روافض و شیعہ: فضائل صحابہ کے بارے میں وارد احادیث کا انکار کیا۔

نوٹ؛ خوارج اور معتزلہ کے فتنے زیادہ دیر نہ چل سکے کیونکہ

1:  ایک تو ان کی تردید میں وسیع کام ہوا جیسا کہ امام شافعی کی کتاب ‘‘الرسالہ’’ امام احمد کی کتاب ‘‘الرسالہ’’ امام ابن قیم  کی کتاب ‘‘ اعلام المؤقعین’’ امام ابن حزم کی کتاب ‘‘ الاحکام’’ ان کتابوں میں سنیت کی حجیت پر کام ہوا ہے۔

2: اس وقت مسلمان غالب تھے اور کافر مغلوب تھے۔ دوسری صدی ہجری میں اس فتنے کا مرکز عراق تھا۔جب تیرھویں صدی ہجری میں یہ فتنہ شروع ہوا تو اس کا مرکز برصغیر تھا اور یہ برصغیر میں اس وقت مسلمان مغلوب تھے اور کافر غالب تھے۔

تیرھویں صدی ہجری اور نکار حدیث:

          ۱: سر سید احمد خان : مغرب سے متاثر اور تعلیم یافتہ تھے۔ اس وقت مغرب میں علم کا معیار عقل تھا  تو سر سید نے خلاف عقل احادیث کا نکار کیا چنانچہ معجزات ، آدم کے نبی ہونےاور فرشتوں کا انکار کیا جبکہ جنت و دوزخ کی مختلف تاویلات کیں۔

          ۲: مولوی چراغ علی: یہ بھی سر سید کے ساتھی اور مغرب سے متاثر تھے ، خلاف عقل احادیث کا انکار کیا، یہ دونوں حضرات کلی طور پر حدیث کے منکر نہیں تھے ، صرف خلاف عقل احادیث کا انکار کیا یا تاویل کرتے تھے۔ البتہ جن حضرات نے کلی طور پر حدیث کا انکار کیا ان میں سے چند ایک کا ذکر درج ذیل ہے:

          ۱: عبد اللہ چکڑالوی: اہل قرآن فرقہ کا ابنی تھا اس نے فکر پیش کی کہ قرآن  کے علاوہ نبی کریم ﷺ پر کچھ بھی نازل نہیں ہوا لہذا عذاب قبر کی احادیث ، نماز تراویح اور تعدد ازدواج کا نکار کیا۔

          ۲: حافظ اسلم جیراج پوری: علی گڑھ یونیورسٹی کے لیکچرار تھے  یہ اعلان کیا کہ حدیث پر ہمارا ایمان نہیں۔ حیدث کو لہو الحدیث قرار دیا۔ اور یہ کہ اطاعت رسول کا حکم صرف نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ساتھ خاص تھا۔

          ۳: علامہ عنائیت اللہ مشرقی: اسلامیہ کالج پشاور کے پرنسپل تھے ۔ حدیث کو غیر ضروری قرار دیا ۔ اہل مغرب سے متاثر تھے۔ اس لیے خلاف عقل احایث کو رد کیا ۔ معجزات کا نکار کیا ۔ حوروں سے مراد سفید فام عورتیں ، جنات سے مراد مولوی اور داڑھی والے ہیں۔

          ۴: غلام احمد پرویز:  اسلم جیراج پوری کے شاگرد ، مغرب سے م،تاثر تھے ۔ ہی عقیدہ کی احادیث ظنی ہیں ، عجمیوں کی سازش ہیں اور روایت بالمعنی ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں اور اطاعت رسول ﷺ کا تعلق نبی کریم ﷺ کی زندگی کے ساتھ ہی تھا۔

تیرھویں صدی  اور استخفاف حدیث:

          حدیث کو معمولی اور غیر اہم سمجھنا ، اس میں تین اہم لوگ شامل ہیں:

          ۱: حمید الدین فراہی: علی گڑھ سے فلسفہ اور انگلش کی تعلیم حاصل کی ، شبلی نعمانی کو ماموں تھے ، لغات القرآن اور نظم قرآن کے انوکھے اصول پیش کیے۔ سنت رسول اور تعامل صحابہ پر زور دیا ، اخبار احاد کی صحت پر شبہ پیدا کیا۔

          ۲: امین احسن اصلاحی: حمید الدین فراہی کے ششاگرد تھے ، حدیچ کے معاملے میں اپنی آراء شامل کیںا ور فراہی کے جانشین ، تفسیر تدبر قرآن کے مصنف تھے۔ اعلانیہ حدیث کا انکار نہیں کیا لیکن عمل سے استخفاف ظاہر ہوتا ہے جیسے تفسیر میں احایث سے بہت کم فائدہ لیا ہے ۔ لغت اور جاہلی ادب سے کام لیا ۔ مسلک امت سے انحراف کرتے ہوئے رجم کا اننکار کیا۔

          ۳: جاوید احمد غامدی: امین احسن اصلاحی کے شاگرد ہیں، ان کے نزدیک فراہی امام اول اور اصلاحی امام ثانی ہیں ۔ سنت کو قرآن مجید سے بھی مقدم قرار دیتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ستائیس اعمال سنت ہیں۔ حدیث سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا  ۔ زکوۃ کا کوئی نصاب متعین نہیں ہے۔ شراب نوشی اور مرتد کی کوئی سزا نہیں ہے۔

تاریخ انکار حدیث پر ایک نظر

1:خوارج نے فضائل اہل بیت سے متعلقہ احادیث کا انکار کیا

2: روافض نے  دیگر صحابہ کے فضائل سے متعلقہ احادیث سے اعراض کیا

3: معتزلہ نے صفات باری تعالی سے متعلق احادیث کا انکا رکیا

4: برصغیر میں سر سید اور مولوی چراغ علی نے خلاف عقل احادیث کا انکار کیا ، عبد اللہ چکڑالوی ، اسلم جیراج پوری اور غلام احمد پرویز وغیرہ  نے کلی طور پر احادیث کا انکار کیا ۔ غلام احمد پرویز نے احادیث رسول پر عمل کو نبی کریم ﷺ کی زندگی تک محدود قرار دیا ۔

5:حمید الدین فراہی امین احسن اصلاحی اور جاوید غامدی نے حدیث و سنت میں فرق کیا اور استخفاف حدیث کے مرتکب ہوئے ۔ حدیث کو غیر اہم قرار دیا۔

6: انکار حدیث کے اسباب :

          ۱: عقل  و فلسفہ کو معیار بنانا ۲:اتباع نفس یعنی قرآن مجید کی من مانی تاویل  کرنے کی کوشش کی گئی اور  جب حدیث اس کی رکاوٹ بنی تو حدیث کا انکار کر دیا یا اس میں تاویل کر دی۔۳:قوت فیصلہ کا فقدان یعنی حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی بات سن کر ان کے پیچھے چل پڑے یعنی خود اس کی اصلاح نہ کر سکے اور ان کی باتوں میں  آ گئے۔  ۴:پست ہمتی اور جہالت یعنی عصری مسائل کے حل کے لیے کتاب و سنت کی نصوص سے استنباط کرنے میں محنت نہیں کی اور جب کوئی حل نہ ملا ، خود حدیث سے جاہل رہے  تو ذخیرہ حدیث کا انکار کر دیا۔  ۵:منصبِ رسالت سے بے اعتنائی یعنی رسالت  کی اہمیت اور مقام و مرتبہ سے لاپرواہی کی گئی اسے غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی گئی اور اس کا احساس نہیں کیا ۔ ۶: سستی شہرت کا حصول  یعنی عجیب و غریب تاویلات اور افکار پیش کر کے بغیر محنت کے ہی شہرت کے حصول کی کوشش کی گئی ۔

 بطور خاص بر صغیر میں چند خارجی اسباب یہ تھے:

۱:برطانوی سامراج کی سازش۔ مسلمانوں کو کمزور اور تقسیم کرنے کے لیے ایسے فتنوں کو ہوا دی گئی بطور خاص ختم نبوت اور انکار حدیث ۔

۲:مستشرقین کی کوششیں یا سازشیں ، اسلامی عقائد کو متزلزل کرنے کے لیے حدیث کو مشکوک قرار دینے کے لیے کاوشیں کیں۔ مختلف قسم کے اعتراضات اور شکوک وشبہات پیدا کیے گئے جن کا اثر برصغیر میں پڑا۔

Download in PDF

 ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive