Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

9/27/23

منکرین حدیث | حدیث پر اعتراض اور جوابات

منکرین حدیث کے بعض اعتراضات کا جائزہ:

       ٍاعتراض نمبر ایک: قرآن مجید میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے  جیسے تبیاٍناً لکل شیئ لہذا حدیث کی پھر ضرورت نہیں ہے۔

          جواب: ۱:قرآن مجید میں ہی یہ وضاحت موجود ہے کہ اس کا بیان اور تشریح کا واحد ذریعہ نبی کریم ﷺ کی ذات ہے۔ بِالْبَیِّنٰتِ وَ الزُّبُرِؕ-وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ(سورۃ النحل:44) ۲:یہ بات درست ہے کہ وضاحت موجود ہے لیکن وہ اجمالاً ہے تفصیلاً نہیں ہے۔ اس کی وضاحت اور تفصیل نبی کریم ﷺ کی حدیث ہےاور عملی تعبیر اور وضاحت اسوہ حسنہ سے ملتی ہے۔ اگر ان کا یہ دعوی تسلیم کر لیا جائے تو نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کی تفصیل قرآن مجید میں موجود نہیں ہے۔

اعتراض نمبر دو: رسول اللہ ﷺ کا منصب صرف ابلاغ تھا لہذا حدیث حجت نہیں۔ما علی الرسول الا البلاغ۔ رسول کا کام قرآں مجید کا بلاغ تھا ۔ (فتنہ انکار حدیث کا آغاز و ارتقاء)

جواب: ابلاغ قرآن مجید صرف کفار کے لیے ہے ، فَاِنَّمَا عَلَیْكَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ (سورہ الرعد آیہ 40) ۔ ان آیات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ابلاغ کافروں کے لیے تھا ، یعنی ان کو صرف پہنچا دیں اگر نہیں مانتے تو ان کا حساب ہم خود لیں۔ جبکہ اہل، ایمان کے آپ کو منصب معلم کتاب و حکمت ہے۔ لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَ(سورۃ آل عمران: 164)۔ اہل ایمان کے لیے آپ کا منصب بیان ہوا ہے اس میں صرف پہنچانے کاذکر نہیں بلکہ آیات کی تلاوت ، لوگوں کو تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ اس سے معلوم ہوا  نبی کریم ﷺ کا منصب شارح اور شارع ہے۔ اگر قرآن مجید کہتا ہے کہ آپ کا منصب ابلاغ ہے تو قرآن مجید ہی یہ بھی کہتا ہے کہ آپ تلاوت کریں، تزکیہ کریں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔ خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اطاعت رسول کو دین کا حصہ قرار دیا ۔ اگر صرف ابلاغ ہوتا تو اتنی سختی سے اطاعت کا حکم کیوں دیتا۔

اعتراض نمبر تین: رسول اللہ ﷺ نے خود حدیث لکھنے سے منع کر دیا تھا۔ جیسا کہ یہ حدیث ہے حدیث نمبر۔۔۔  لا تَكْتُبُوا عَنِّي، ومَن كَتَبَ عَنِّي غيرَ القُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ(صحیح مسلم:7510) مجھ سے کچھ بھی نہ لکھو سوائے قرآن کے جس نے قرآن مجید کے علاوہ کچھ لکھا ہے تو اس کو مٹا دے۔لہذا موجودہ کتب حدیث عجمی سازش کا حصہ ہیں۔

جواب: ۱: ایک طرف حدیث کا انکار کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف خود  بطور دلیل حدیث ہی پیش کر رہے ہیں۔یہ کیسے پتہ چلا کہ لکھنے سے منع کیا تھا تو آپ بھی دلیل کے طور پر حدیث پیش کر رہے ہیں۔

۲: ایک اور حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی ، کہ کہیں حدیث قرآن مجید کے ساتھ خلط ملط نہ ہو جائے۔ لیکن جب یہ خطرہ ٹل گیا تو نبی کریم ﷺ نے لکھنے کی طرف ترغیب دی  ۔۔۔۔آپ ﷺ نے خود بھی معاملات لکھوائے(جیسے ابو شاہ کے لے آپ ﷺ نے قتل اور دیت کے معاملات لکھ کر دینے کا حکم دیا)بہت سے صحابہ کرام نے حدیث کے صحیفے بھی تیار کر لیے تھے۔ جیسے کہ صحابہ کرام کے صحیفے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا صحابہ کرام کو نہیں معلوم تھا کہ نبی کریم ﷺ نے منع کیا تھا ۔ یہ حدیث صحابہ کرام جانتے تھے لیکن انہیں معلوم تھا کہ آپ ﷺ نے بعد میں اجازت دے دی تھی۔

اعتراض نمبر چار: متعدد احادیث خلاف عقل ہیں اور بعض میں عریانیت پائی جاتی ہے لہذا قابلِ اعتماد نہیں ہیں۔

جواب:  احادیث دراصل خلاف عقل نہیں بلکہ ہماری عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔ اور اگر عقل ہی بنیا دہو تو عقول میں بھی تفاوت ہوتا ہے ایک بندے کی عقل کے مطابق ایک بات درست ہوتی ہے جبکہ وہی بات دوسرے کی عقل کے مطابق درست نہیں ہوتی ۔

          اگرچہ عریاں گفتگو ممنوع ہے لیکن اگر اس کی ضرور ت ہو تو جائز ہی نہیں ضروری ہوجاتی ہے۔ اگر یہ بات حدیث کے کو ناقابل اعتبار بناتی ہے تو اس طرح ہمیں قرآن مجید میں بھی بعض مقامات پر ایسی باتیں ملتی ہیں جیسے ‘‘ماہواری کے معاملات’’ محرم عورتوں کے ضمن میں ‘‘وَ  رَبَآىٕبُكُمُ  الّٰتِیْ  فِیْ  حُجُوْرِكُمْ  مِّنْ  نِّسَآىٕكُمُ  الّٰتِیْ  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّ٘-فَاِنْ  لَّمْ  تَكُوْنُوْا  دَخَلْتُمْ  بِهِنَّ  فَلَا  جُنَاحَ  عَلَیْكُمْ٘’’  تو اس طرح (نعوذ باللہ) قرآن مجید ک ابھی انکار کر دیں؟۔ اگر احادیث مبارکہ میں کہیں ایسے الفاظ اور معاملات موجود ہیں تو ضرورت کے مطابق تعلیم و تعلم کے وقت ہی اسیی باتیں ہوئی ہیں ورنہ خطابات میں اور عوام الناس میں ایسا نہیں ہے۔

اعتراض نمبر پانچ: علم حدیث ظنی ہے لہذاحق کے مقبلے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ بطور دلیل  ان الظن لایغنی من الحق شیئا ۔ علم حدیث میں شک کی گنجائش ہے کیوں کہ اس میں غلطی کا امکان ہے اور یہ بندوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔

جواب: ۱: حدیث بھی قرآن کی طرح وحی پر مبنی ہے اس لیے قطعی علم کا فائدہ دیتی ہے  ظنی علم کا نہیں۔

          ۲: اگر بندوں کے ذریعے پہنچنے والی ہر چیزز غلط ہو یا اس میں غلطی کا امکان ہو تو قرآن مجید بھی بندوں کے ذریعے پہنچا ہے۔

          ۳: لفظ ظن اردو میں شک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے عربی میں ایسا نہیں ہے۔ عربی میں قرائن کو دیکھا جاتا ہے یعض اوقات یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسا کہ جب موت آ رہی ہوتی ہے جیسے   وَّ ظَنَّ اَنَّهُ الْفِرَاقُ (سورۃ القیامہ:28)تو موت کو دیکھنے والے کو گمان یا شک نہیں بلکہ یقین ہوتا ہے ، یہاں لفظ ظن یقین کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

اعتراض نمبر چھے: علم حدیث بالمعنی ہم تک پہنچا ہے اس لیے یہ شکوک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔

جواب: ۱: روایات بالمعنی کا تعلق فقط اقوال سے ہے ۔تو کیا منکرین افعال اور تقریرات کو حجت مانتے ہیں؟

          ۲: اس کے علاوہ اقوال میں اذکار ، اذان ، اقامت اور احادیث قدسیہ تمام روایات باللفظ ہیں۔

          ۳: صحابہ بھی جہاں ناگزیر ہوتا وہاں روایت بالمعنی کرتے اور یہ یاد رہے کہ صحابہ کرام نہ صرف اعلی درجہ کے حافظ تھے بلکہ رسول اللہ ﷺ کے مزاج شناس بھی تھے۔ لہذا ممکن ہی نہیں کہ معنی و مفہوم میں تبدیلی ہو سکے۔

اعتراض نمبر سات: کتب احادیث عہد نبوی کے اڑھائی ، تین سو سال بعد لکھی گئی تھیں اس لیے ان کا محفوظ ہونا محل نظر ہے۔

جواب: اگر فن حدیث کا مطالعہ کیا گیا ہو تو طیہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوتا کیوں کہ مستند روایات سے ثابت ہے  کہ عہد نبوی سے ہی کتابت حدیث کا آغاز ہو گیا تھا اور بہت سے صحابہ کرام کے صحائف بھی اس پر شاہد ہیں۔

موطا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سو سال بعد لکھی گئی تھی جس سے اس اعتراض کی تردید کی جا سکتی ہے دوسری صدی ہجری میں مسند شافعی مسند احمد مسند عبدالرزاق اور مسند ابن ابی شیبہ وغیرہ سے بھی اس کی تردید ہوتی ہے۔

اعتراض نمبر آٹھ: مشاجرات صحابہ اور دور فتن میں احادیث میں تحریف کی گئی لہذا قابل اعتماد نہیں ہے۔

 جواب : یہ اعتراض دراصل صحابہ کی عدالت اور دیانت پر حملہ ہے جس پر نہ صرف محدثین کا اتفاق ہے بلکہ قران مجید میں بھی متعدد مقامات پر صحابہ کرام کو خیر امت، امت وسط اوررضی اللہ عنھم کہہ کر اس کی گواہی دی گئی ہے اور اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو یہ قران بھی انہی صحابہ کرام کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے اس طرح وہ بھی مشکوک ہو جائے گا۔

اعتراض نمبر نو :صرف وہ احادیث قابل قبول ہیں جو قران مجید کے موافق ہیں اس کے علاوہ تحلیل و تحریم اور اضافی احکام پر مشتمل قابل قبول نہیں۔  (فتنہ انکار حدیث کا آغاز و ارتقاء)

جواب: ۱:یہ ممکن ہی نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم قران مجید کے خلاف کوئی بات کریں اس لیے یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

۲: یہ اعتراض بھی منکرین اس لیے کیا کہ اس کے برعکس قران مجید پر اعتراض بھی لازم اتا ہے

۳: احادیث کی تین اقسام ہیں اور تینوں برابر حجت ہیں ۱: ایسی احادیث جو قران مجید کی تائید کرتی ہیں ۲: ایسی جو قران مجید کی تشریح کرتی ہیں ۳:ایسی احادیث جن میں قران مجید کے علاوہ کچھ اضافی احکام موجود ہیں یہ سبھی اقسام قابل حجت ہیں اور اضافی احکام بھی قابل حجت ہیں جو کہ وَمَاۤ اٰتٰکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ۚ وَمَا نَہٰکُمْ عَنْہُ فَانۡتَہُوۡا (سورۃ الحشر: 7)زمرے میں آتے ہیں۔جیسے خالہ بھانجی کو اکٹھے نکاح میں رکھنا ،دادی کی وراثت اور گھریلو گدھے کی حرمت ہے

اعتراض نمبر دس:  احادیث میں تعارض ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔

 جواب: ۱:  احادیث میں تعارض حقیقی نہیں صرف ظاہری ہے اور اس کا بھی حل محدثین نے صدیوں پہلے پیش کر دیا تھا۔ اختلاف الحدیث امام شافعی تاویل مختلف الحدیث امام ابن قتیبہ اور مشکل الاثار امام طحاوی ۔  اور رفع تعارض کے اصول بیان کر دیے ہیں : جمع و تطبیق ، ناسخ و منسوخ ، ترجیح اور توقف

۲:  امام ابن خزیمہ نے صدیوں پہلے یہ دعوی کیا تھا کہ احادیث میرے پاس لاؤ میں ان کا تعارض دور کرتا ہوں یعنی حل پیش کرتا ہوں۔

اگر صرف ظاہری تعارض کی وجہ سے حدیث ساقط الاعتبار ہے تو ایسی مثالیں تو قرآن مجید میں بھی ہیں جیسے: کن  فیکون اور فی ستہ ایام  اور الیوم نختم علی  اور یوم تشہد علیھم السنتھم  میں ظاہری الفاظ میں تعارض ہے۔

Download in PDF

ماخوذ ازلیکچرز : ڈاکٹر شہزادہ عمران ایوب صاحب

سبجیکٹ: علوم الحدیث

کلاس PHD سیشن 2023  ایجوکیشن یونیورسٹی  لوئر مال کیمپس لاہور

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive