Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

6/29/22

شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی | امیر صبوری کلام shehr khali jadda khali


 

شہر خالی، جادّہ خالی، کوچہ خالی، خانہ خالی

جام خالی، سفرہ خالی، ساغر و پیمانہ خالی

کوچ کردہ ، دستہ دستہ ، آشنایان، عندلیبان

باغ خالی، باغچہ خالی، شاخہ خالی، لانہ خالی

(کیا عالم ہے کہ شہر، رستے، کوچے اور گھر سب خالی لگتے ہیں، جام میز صراحی و ساغر بھی خالی ہیں۔ آہستہ آہستہ تمام دوست اور بلبلیں یہاں سے کوچ کر چکی ہیں یہی وجہ ہے کہ باغیچے شاخیں اور گھونسلے سب کے سب خالی ہیں)

وائے از دنیا کہ یار از یار می ترسد

غنچہ ہای تشنہ از گلزار می ترسد

عاشق از آوازہ دیدار می ترسد

پنجہ خنیاگران از تار می ترسد

شہ سوار از جادہ ہموار می ترسد

این طبیب از دیدن بیمار می ترسد

(حیف ہے اس دنیا پر کہ جہاں دوست دوست سے ڈرتا ہے، کلیاں کھلنے سے پہلے ہی باغ سے ڈرتی ہیں، عاشق اپنے محبوب کی آواز سے ڈرتا ہے، موسیقار ساز کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں اور مسافر آسان راستے سے بھی خوف کھاتے ہیں اور طبیب بیمار کو دیکھنے (معائنہ کرنا)سے ڈرتا ہے۔)

سازہا بشکست و دردِ شاعران از حد گذشت

سال ہائے انتظاری بر من و تو برگذشت

آشنا ناآشنا شد تا بلی گفتم بلا شد

(سْروں کو بکھیرنے والے تار ٹوٹ چکے اور شاعروں کا درد حد سے گزر گیاہے۔ میں نے تیرے انتظار میں اتنے سال گزارے ہیں ستم ظریفی کی حد تو یہ کہ سب آشنا اب ناآشنا ہو گئے ہیں۔)

گریہ کردم، نالہ کردم، حلقہ بر ہر در زدم

سنگ سنگِ کلبہ ویرانہ را بر سر زدم

آب از آبی نجنبید خفتہ در خوابی نجنبید

(میں بہت رویا، گریہ و فریاد کی،ہر ایک دروازے پر دستک دی۔ اس ویرانے کے پتھروں کی ریت اپنے سر پر ڈالی۔ لیکن جیسے پانی کو نہیں معلوم کہ وہ کسقدر گہرا ہے ویسے ہی سوئے ہوئے شخص کو کیا پتہ کہ وہ کتنی گہری نیند سو رہا ہے)

چشمہ ہا خشکیدہ و دریا خستگی را دم گرفت

آسمان افسانہ ما را بہ دستِ کم گرفت

جام ہا جوشی ندارد، عشق آغوشی ندارد

بر من و بر نالہ ہایم، ہیچ کس گوشی ندارد

(سب چشمے خشک ہوگئے، دریا سست ہوگئے، آسمان نے بھی میری داستان کو کوئی وقعت نہ دی سب نشہ بے اثر ہوگیا ہے اور عشق کی آگ جو سینوں میں تھی بجھ چکی ہے)

بازآ تا کاروانِ رفتہ باز آید

بازآ تا دلبرانِ ناز ناز آید

بازآ تا مطرب و آہنگ و ساز آید

تا گل افشانم نگارِ دل نواز آید

بازآ تا بر در حافظ اندازیم

گل بیفشانیم و می در ساغر اندازیم

(تم لوٹ آؤ تاکہ قافلہ پھر روانہ ہو جائے، لوٹ آئوکہ محبوبوں کے نازوانداز لوٹ آئیں۔ لوٹ آؤ گے مضطرب ساز کی دنیا آباد ہو۔ لوٹ آؤ اور حافظ کے انداز میں مہرجاناں کے استقبال میں پھول برسائیں اور رونقیں پھیلا دیں

شاعر : امیر جان صبوری

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive