Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

3/18/23

باب الریان | لفظ ریان کا معنی | ریان کیا ہے | روزے کی جزا

 

باب الریان : لفظ ریان کا مطلب و معنی:

 جنت میں تو بہت سارے دروازے ہیں مگر ایک خاص دروازہ ہے اور اس دروازے کا نام باب الریّان ہے۔ عربی زبان میں ریّان کا ایک معنی خوبصورت پھوار والی بارش ہے۔ جس سے موسم خوشگوار ہوجاتا ہے، نہ گرمی کی تپش رہے اور نہ بارش کا کیچڑ رہے۔ ریّان کا دوسرا معنی سیرابی ہے، یہ سیرابی، پیاس کے برعکس ہے، پیاس کو العطش کہتے ہیں اور شدید پیاسے کو عطشان کہتے ہیں لیکن اگر کوئی خوبصورت، ٹھنڈا، میٹھا مشروب پی کے سیراب ہوجائے، سیر ہوجائے تو عطشان کے مقابلے میں اسے ریّان کہتے ہیں۔ گویا عطش اور عطشان میں جتنی پیاس ہے، ریّان میں اتنی ہی سیرابی ہے۔ یہ دروازہ صرف ماہ رمضان کے روزہ داروں کے لئےمختص ہوگا، روزہ دار اس دروازے سے گزارے جائیں گے۔ اس کی حکمت کیا ہے؟ درحقیقت روزہ اللہ کے لئے بھوک اور پیاس اپنانے کا نام ہے، روزہ دار اللہ کے لئے پیاس اپنا کر عطشان بن کے جائیں گے، اللہ فرمائے گا میری خاطر عطشان ہونے والے بندوں کو ریّان سے گزارو تاکہ جنت میں پہنچنے سے پہلے ہی سیراب ہوجائیں۔ پس آج کی پیاس وہاں کی سیرابی سے بدل جائے گی۔ اب فیصلہ ہم پر ہے کہ ہم آج کی پیاس کو برداشت کرکے وہاں کی سیرابی کے لئے اپنے آپ کو کس قدر کمربستہ کرتے ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اعلان کردیا جائے گا کہ سوائے روزہ داروں کے اس دروازوں سے کسی اور کو گزرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ اللہ فرمائے گا کہ یہ دروازے صرف انہی کے لئے مختص ہے جو میری خاطر بھوکے اور پیاسے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر ہوگا اور آواز دی جائے گی کہ روزہ دار کہاں ہیں؟ پس اس آواز کو سن کر روزے دار میدانِ قیامت میں کھڑے ہوجائیں گے، عرض کریں گے مولیٰ ہم حاضر ہیں، اس وقت حکم ہوگا کہ تمام روزے دار جنت میں باب الریّان سے داخل ہوجائیں اور ساتھ ہی فرمایا جائے گا کہ ان روزے داروں کے سوا اس دروازے سے اور کوئی داخل نہ ہو اور جب روزہ دار اس دروازے سے داخل ہوجائیں گے تو دروازہ بند کردیا جائے گا اور پھر اس دروازے سے کوئی اور داخل نہ ہوسکے گا۔ یہ خاص نعمت و سعادت اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کے حصہ میں رکھی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’جنت کے کئی دروازے ہیں جو نمازی ہوں گے ان کے لئے باب الصلاۃ ہوگا جو مجاہد ہوں گے ان کو باب الجہاد سے گزارا جائے گا جو صدقہ و خیرات کرنے والے ہوں گے وہ باب الصدقہ سے گزارے جائیں گے اور جو روزہ دارہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا، ، ۔

 اللہ تعالیٰ نے ہر عمل کے نام پر ایک دروازہ رکھا ہے اور اس عمل کے کرنے والے اسی عمل کے نام والے دروازے سے گزریں گے۔ نمازی ہے تو دروازہ نماز ہے۔ ۔ ۔ مجاہد ہے تو دروازہ جہاد ہے۔ ۔ ۔ صدقہ خیرات کرنے والا ہے تو دروازہ صدقہ ہے۔ اس اصول پر چاہئے تھا کہ روزہ رکھنے والوں کے لئے باب الصیام ہوتا، جس طرح ہر عمل کا دروازہ، فقط اس عمل کے نام پر ہے مگر روزہ رکھنے والوں کے لئے دروازہ باب الصیام کے نام سے نہیں، کیوں؟ اس لئے کہ یہ لوگ اللہ کے لئے بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں، لہذا اللہ نے اس دروازے کے نام کو مختلف کردیا اور اپنی بارگاہ کی سیرابی کے نام پر باب الریّان بنادیا اور ارشاد فرمایا : کہ جو روزہ دار ہوں گے انہیں باب الریّان سے گزارا جائے گا۔ اگر اس دروازے کا نام باب الصیام ہوتا یعنی روزوں کے نام سے ہی دروازہ ہوتا تو اس دروازے کی قدرو منزلت بھی دوسرے اعمال والے دروازوں کے برابر ہوجاتی۔ یہاں نام عمل کے نام پر نہیں بلکہ عمل کے اجر کے نام پر رکھا ہے اور اجر کیا ہے؟ دیگر اعمال کے اجر نیکیاں ہیں، کسی نے کوئی نیک عمل کیا تو دس، سو یا سات سو نیکیاں مل گئیں یعنی اجر نیکیوں کی تعداد میں ملا۔مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَه عَشْرُاَمْثَالِهَا. (سورۃ الانعام:160)’’جو ایک نیکی کرتا ہے اس کو دس گنا اجر ملتا ہے، ، ۔ ہر عمل کا اجر تعداد کے حساب سے مقرر ہے اور ہر عمل کا دروازہ اس عمل کے نام پر مقرر ہے مگر روزے کے لئے اجر نہ نیکیوں کی تعداد میں ہے نہ دروازہ، عمل کے نام پر ہے بلکہ روزے کے اجر کے بارے میں فرمایا کہ اَلصَّوْمَ لِيْ وَاَنَا اَجْزِيْ به ’’روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا، ، ۔ وہ جزا کیا ہے؟

 روزے کی جزا کو اللہ تعالیٰ نے دیگر اعمال کی طرح واضح نہیں فرمایا بلکہ چھپا کر رکھا ہے۔ اس اجر کی تھوڑی سی جھلک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے سامنے آرہی ہے۔ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا : إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ ’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت اور ایک خوشی دیدار کے وقت، ، ۔ ریّان کا معنی اس حدیث کے ساتھ ملاکر سمجھنے سے مزید واضح ہوجائے گا کہ روزے کے عمل کے مطابق اس کا دروازہ اس کے نام پر نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ بقیہ اعمال کے اجر نیکیوں کی تعداد کے لحاظ سے بتادیئے گئے اسلئے درازے کا نام بھی عمل کے نام پر رکھ دیا گیا مگر چونکہ اللہ نے روزے کے اجر کا اعلان نہیں کیا اس لئے اس اجر کے نام پر دروازے کا نام رکھ دیا گیا کہ روزے داروں کا دروازہ سیرابی کا دروازہ ہے اور سیرابی کس چیز کی؟ فرمایا کہ روزے دار کے لئے میرے دیدار کے سوا کسی اور شے میں سیرابی ہے ہی نہیں۔ فرمایا : اے روزے دار تو نے میری خاطر بھوک برداشت کی، آج اپنے دیدار کے ذریعے تیری بھوک کو رفع کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر پیاس برداشت کی آج اپنے دیدار کے شربت سے تیری پیاس کو دور کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے نفس کی لذتوں کو خیر باد کہا آج میں اپنے دیدار کے ذریعے تجھے اپنی قربتوں کی لذت عطا کرتا ہوں۔ ۔ ۔ تو نے میری خاطر اپنے اوپربہت سی راحتیں حرام کرلیں آج میں اپنے وصال کی راحت سے تمہیں ہمکنار کرتا ہوں۔ پس یہ سیرابی اللہ کی قربت سے، اللہ کے وصال اور دیدار سے ہے۔ 

جمالِ یار کی حسرت میں جو مریض ہوا

جمالِ یار ہی ان کا طبیب ہوتا ہے

 اسی مفہوم کو کسی شاعر نے فارسی میں یوں بیان کیا۔

از سرِ بالین من برخیز اے نادان طبیب

درد مندے عشق را دارو بجز دیدار نیست

(مریض کہتا ہے) اے معالج آپ میرے سرہانے سے اٹھ جائیں (آپ کی دوائی میں میری مرض کا علاج نہیں ہے میں تو در مندِ عشق ہوں اور مریضِ عشق کا علاج محبوب کے دیدارکے سوا کچھ نہیں ہوتا، ، ۔

 اللہ تعالیٰ نے روزہ داروں کو اپنے عاشقوں میں شامل فرمایا اس لئے روزہ داروں کا اجر اپنی ذات کا دیدار مقرر فرمایا۔


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive