Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/14/20

آجکل اتنی غربت کیوں ہے؟



کسی آدمی سے کسی نے پوچھا کہ آجکل اتنی غربت کیوں ہے؟
جواب میں اس نے کہا کہ میرے خیال میں اتنی غربت نہیں ہے جتنا شور ہوتا ہے۔
آجکل ہم جس کو غربت بولتے ہیں وہ دراصل خواہشوں کا  پورا نہ ہونا ہے۔ ہم نے تو غربت کے وہ دن بھی دیکھے ہیں کہ سکول میں تختی پر ( گاچی) کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو سواگہ استعمال کرتے تھے۔( تختی) پر سیاہی کے پیسے نہیں ہوتے تھے تو سیل کا سکہ استعمال کرتے تھے۔ سکول کے جو کپڑے لیتے تھے وہ صرف عید پر لیتے تھے۔ اگر کسی شادی بیاہ کیلیے کپڑے لیتے تھے      تو سکول کلر کے ہی لیتے تھے۔ کپڑے اگر پھٹ جاتے تو سلائی کر کے بار بار پہنتے تھے۔ جوتا بھی اگر پھٹ جاتا تو اسے بار بار گانٹھا جاتا۔ اور جوتا سروس یا باٹا کا نہیں پلاسٹک کا ہوتا تھا ۔ گھر میں اگر مہمان آ جاتا تو پڑوس کے ہر گھر سے کسی سے گھی کسی سے مرچ کسی سے نمک مانگ لاتے تھے۔
        آج تو ماشاء اللہ ہر گھر میں ایک ایک ماہ کا سامان پڑا ہوتا ہے۔ مہمان کیا پوری بارات کا سامان موجود ہوتا ہے۔ آج کل تو سکول کے بچوں کے ہفتے کے سات دنوں کے سات جوڑے استری کر کے گھر رکھے ہوتے ہیں۔ روزانہ نیا جوڑا پہن کر جاتے ہیں۔ آج اگر کسی کی شادی پر جانا ہو تو مہندی بارات اور ولیمے کیلیے الگ الگ کپڑے اور جوتے خریدے جاتے ہیں۔
        ہمارے دور میں ایک چلتا  پھرتا انسان جس کا لباس تین سو تک اور بوٹ دو سو تک ہوتا تھا اور جیب خالی ہوتی تھی۔ آج کا چلتا پھرتا نوجوان جو غربت کا رونا روتا ہے اس کی جیب میں تیس ہزار کا موبائل کپڑے کم سے کم  دو ہزار کے ، جوتا کم سے کم تین ہزار کا، گلے میں سونے کی زنجیر ، ہاتھ پہ گھڑی ۔
غربت کے دن تو وہ تھے جب گھر میں بتی جلانے کے لیے تیل نہیں ہوتا تھا روئی کو سرسوں کے تیل میں ڈبو کر جلاتے تھے۔ آج کے دور میں خواہشوں کی غربت ہے اگر کسی کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے تین جوڑے کپڑے یا عید کیلیے تین جوڑے کپڑے نہ سلا سکے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم غریب ہیں۔
ہم نہ شکرے ہو گئے ہیں اسی لیے برکتیں اٹھ گئی ہیں؟۔۔۔۔۔۔
Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive