Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

8/15/25

مذہبی انتشار کی وجہ |Cause of religious discord

موجودہ دور میں مذہبی انتشار کے پیچھے کون سا  قانون کارفرما ہے؟

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنے سطحی علم کی بنیاد پر ایک عقیدہ یا تصور باندھ لیتا ہے اور پھر اس پر مختلف طرح کے دلائل قائم کرتا ہے اور اسی عقیدہ و تصور کو مضبوط کر لیتا ہے، اس کے پیچھے کچھ محرکات ہو سکتے ہیں مثلا:

·       پہلے سے موجود تصور کے مخالفت میں نئے تصور میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے

·       نئے تصور کو قائم کرنے سے حاصل ہونے والے فوائد ملحوظِ خاطر ہوتے ہیں

·       کسی بیرونی دباو کی بنیاد پر نیا تصور قائم ہوتا ہے

·       اپنی جبلی نفسیاتی تسکین کی وجہ سے نیا تصور قائم ہوتا ہے

·       حقیقتاً پہلے تصور کی نسبت دوسرا تصور درست ہوتا ہے اور اس کا پرچار مقصود ہوتا ہے

ان کے علاوہ بھی کئی محرکات ہو سکتے ہیں!۔۔۔

اب اگر شومئی قسمت وہ تصور اور عقیدہ غلط ہو تو انسان کو یہ قطعا محسوس نہیں ہوتا کہ وہ غلط راست پر چل نکلا ہے بلکہ اس  کو ہمیشہ یہی احساس رہتا ہے کہ وہ جو کر رہا ہے وہ ہی درست ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں بیسیوں مقام پر اس طرح کا کلام ملتا ہے کہ ’’ شیطان نے ان کے لیے ان اعمال مزین کر دیے ہیں اور وہ خود کو درست سمجھ رہے ہوتے ہیں حالانکہ وہ گمراہی کی منزل کے راہی ہوتے ہیں‘‘۔ کئی مقامات پر ایسا کلام ملتا ہے کہ ان کے اعمال ضائع ہو چکے ہوتے ہیں اور انہیں خبر تک نہیں ہوتی ‘‘ اس کے پیچھے بھی دراصل وہی بات ہوتی ہے کہ انہیں یہ شعور ہی نہیں رہتا کہ وہ غلط راہوں پر چل نکلے ہیں اور اپنے کام اور راستے کو ہی درست سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟۔۔۔

اللہ جل شانہ نے ارشاد فرمایا:

وَ هَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِ (سورۃ البلد:10)، فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا (سورۃ الشمس:8)، اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا (سورۃ الدھر:3)

یعنی دونوں راستوں سے متعلق انسان کو بتا دیا گیا ہے،  اب جو کیفیت انسان کے دل پر غالب ہو گی انسان کے عقائد و نظریات کا رخ ادھر ہی کا ہو گا۔ اب سوال یہ کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟تو ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ انسان کے دل و دماغ پر منفی قوتوں کا غلبہ ہوتا ہے ، فجور ، باطل اور طاغوت انسانی دل کو اپنے شکنجے میں جکڑ چکے ہوتے ہیں اور انسان پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا، کیوں کہ وہ جب بھی غیر جانب دار ہو کر سوچنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے ڈانٹ دیا جاتا ہے اور لگامیں کھینچ لی جاتی ہیں، کبھی دلائل کی صورت میں کبھی خود پرستی کی صورت میں، اس طرح ہدایت کے راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔

اپنی غلطی کا احساس کیسے ہو؟؟

آپ اپنی ذات پر غور کریں کہ جب کبھی آپ کسی اپنے سے اچھے انسان کو دیکھتے ہیں ، اس کے بارے میں سنتے ہیں ، کسی اچھی چیز کو دیکھتے ہیں جو کہ آپ کو حاصل نہیں ہے، کبھی کوئی منصوبہ بناتے ہیں !!! تو ان ساری صورتوں میں اگر آپ کو سب سے پہلے منفی خیالات دماغ میں ابھرتے ہیں تو یقینا ً آپ پر منفی قوتوں کا غلبہ ہے تو فیصلہ آپ خود کر لیں اور اپنی اصلاح کی کوشش کریں ۔۔۔ لیکن یہ سب کچھ تب کار آمد ہو گا اگر آپ اخلاص کے ساتھ یہ کام کریں گے اور اپنی ذات کے لیے مخلص ہیں تو ان تمام معاملات کا نیتجہ بھی آپ کو سو فیصد ملے گا ،،، اب اس تحریر کا ہی معاملہ لے لیں کہ آپ کو تحریر پڑھنے کے دوران دماغ میں منفی خیالات ابھر رہے ہیں یا مثبت؟؟؟؟؟؟

اس کیفیت سے نکلنے کی عملی تدابیر

 علم کے مصادر کی تصحیح :  قرآن و سنت اور اہلِ علم کے معتبر فہم سے استفادہ، غیر مستند ذرائع سے بچاؤ۔

نقدِ ذات (Self-Criticism) :  اپنی رائے پر بار بار نظرثانی، بجائے اس کے کہ اس کو تقدس کا درجہ دے دیا جائے۔اپنی نفی کریں اپنے دماغ کی نفی کریں اور معاملات پر نظر ثانی کریں دوبارہ نئے سرے سے پرکھیں۔

 اہلِ تقویٰ کی صحبت :  نیک اور سنجیدہ لوگوں کی مجلس میں رہنا دل کو کھولتا اور نظر کو تیز کرتا ہے۔

 دعائے ہدایت :  نبی ﷺ کی کثرت سے پڑھی جانے والی دعا: يَا مُقَلِّبَ القلوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ (ترمذی)

 

          یاد رکھیں تزکیہ نفس بہت مشکل ہوتا ہے ، اس میں سب سے پہلے اپنی ذات کی نفی کرنا ہوتی ہے ، خود کو قصور وار سمجھنا ہوتا ہے ، خود کو حقیر جاننا ہوتا ہے ، پھر اس کو لاحق بیماری کا اقرار بھی ضروری ہے ، اس بیماری کے موذی ہونے کا بھی اقرار کرنا ہوتا ہے  ، بیماری کے لاحق ہونے میں بھی خود کو ذمہ دار ٹھہرانا ہوتا ہے، یعنی یہ ساری صورتیں اپنی نفی سے ہوتی ہیں جب انسان اپنی نفی کر دیتا ہے تو یہ سب باتیں آسان ہو جاتی ہیں ورنہ انسان وہیں کا وہیں کھڑا رہ جاتا ہے!!!۔۔۔جب انا کی عمارت دھڑام سے گرتی ہے تو تزکیہ نفس کا آدھا مرحلہ طے ہو جاتا ہے، ایک ہی جست میں سفر آدھا طے ہو جاتا ہے۔اب سیکھنا یہ ہے کہ یہ بے لگام نفس کا گھوڑا کس کس طریقے سے آپ پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس سے بچنا کیسے ہے؟؟؟۔۔۔۔

تحریر: محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر: یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive