Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

8/10/25

دین اسلام اور ہمارا مزاج | اہل مغرب دین سے متنفر کیوں؟ |نوجوان دین سے متنفر کویں؟

دین کے معاملات میں شخصی مزاج کی شمولیت

جب آپ دین کے معاملات میں اپنے مزاج کو داخل کرتے ہیں تو نظام بگڑ جاتا ہے ۔ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں ، تشویش لاحق ہونے لگتی ہے، سوالات جنم لیتے ہیں اور دین کا اپنا حقیقی مزاج مجروح ہونے لگتا ہے!!!!

ان الفاظ سے سوال پیدا ہوتا ہے دین کے معاملات میں مزاج کے داخل ہونے سے کیا مراد ہے؟

تو سنیے!! اللہ تعالی نے ہر انسان کو عقل اور شعور سے نوازا ہے اور ایک دماغ دیا ہے جو کہ ہر انسان کا اپنے ماحولیاتی، خاندانی اور سماجی اثررات کی بدولت مختلف ہے اور بغیر کسی اختلاف رائے کے ہر انسان کی سوچ اور سوچ کا زاویہ مختلف ہے، ہر انسان اپنی ترجیحات ، خواہشات ، پسند و ناپسند اور رجحانات کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ (اس پر بے شمار سائنسی ،نفسیاتی ، مذہبی اور معاشرتی دلائل موجود ہیں)

بلکل ایسے ہی جیسے پانی اور مٹی ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں لیکن زمین سے مختلف قسم کی نباتات وجود میں آتی ہیں۔  اسی طرح جب ایک حدیث اور قرآنی آیت اس دماغ میں جاتی ہے تو اس کا عکس دماغ اپنے مزاج سے لیتا ہے۔ (ممکن ہے دماغ وہی عکس لے رہا ہو جو دین کا مزاج ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ بلکل اس کے بر عکس ہو) ۔ معاشرے میں موجود  مذہبی اختلافات اور لڑائی جھگڑے میرے اس دعوے کا ثبوت ہیں۔

جو میں نے سمجھا وہی درست ہے

اس دور میں رسوائی والی بات یہ ہے کہ ہر شخص یہ کہتا ہے کہ جو میں نے سیکھا جو میں نے سمجھا وہی درست اور کامل ہے اور اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں کہ جس طرح آپ کے دماغ نے عکس بنایا ہے  اسی طرح کوئی اور دماغ بھی عکس بنا سکتا ہے، اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ حقیقت میں درست کیا ہے؟ (اس سوال کا جواب ہے:  دین کا مزاج فیصلہ کرے گا)

یہی تصور کہ جو میں نے سمجھا یا سیکھا یا جو میرے اسلاف نے سمجھا اور سیکھا وہی حقیقت ہے یہ تصور ہی مزاج ہے جو دین میں داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور لوگوں کو مجبور کیا جاتا ہے  (یاد رہے میری اس تحریر میں علما اور عوام کے درمیان جو ایک خلا پیدا ہو رہا ہے اس کے آر پار دونوں گروہوں کی آپس کی کشمکش ہے)

 

دین میں شخصی مزاج کی کوئی گنجائش نہیں

          جناب رسالت ماب ﷺ نے بھی اللہ تعالی سے آنے والےاحکامات میں اپنے مزاج کو داخل نہیں ہونے دیا، جس طرح اللہ جل شانہ سے نازل ہوا اسی طرح لوگوں کو پہنچا دیا ، کمال کی دیانت داری ہے کمال کی امانت داری ہے ، کمال کی صاف گوئی اور حق بیان کرنے میں بے باکی ہے، کمال ہے کہ سورہ عبس کی ابتدائی آیات بھی امت کو سنا دیں، اپنے بیٹی کا نام لے کر فرما دیا کہ اگر چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹے جائیں گے ، کمال کی دیانت داری ہے ایسے واقعات اور بیانات ہمیں بتاتے ہیں کہ دین میں اپنے مزاج کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دین کو ویسے ہی لینا ہو گا جیسے یہ نازل ہوا ہے  اسی لیے تو حکم دیا گیا ہے ، ادخلوا فی السلم کافۃ۔۔۔۔۔۔اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اگر جھگڑا ہو جائے تو  اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔۔۔ یعنی اللہ اور اس کے رسول کا مزاج جھگڑے ختم کرتا ہے مگر یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے جھگڑے ہی اللہ اور اس کے رسول کے  نام پر ہو رہے ہیں اور انہیں معاملات میں جھگڑے جن معاملات نے جھگڑے ختم کرنے ہیں تو یہ جھگڑوں کا ہونا اور معاملات کا دن بدن  دیگر گوں ہونا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہم دین میں اپنا مزاج داخل کرنے کے چکر میں ہیں ۔۔۔

جب یہ کہا جائے کہ!!  اس حدیث کا مطلب یہ نہیں، یہ ہے، اس آیت سے مراد یہ نہیں یہ ہے ۔چار بندے مختلف نکتہ نظر رکھتے ہوں تو اس کا مطلب ہے ہر کوئی اپنے مزاج کی پیروی کر رہا ہے، ہر کوئی اپنے مزاج کو درست منوانے پر تُلا ہوا ہے۔۔۔۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اس حدیث یا آیت کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے ، اس حکم کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے اُس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے ، پھر بھی بات قابلِ برداشت ہے لیکن جو یہ دعوی کر دیا جاتا ہے کہ نہیں اس کا صرف یہی درست مطلب ہے جو میں بیان کر رہا ہوں یا میرے اسلاف نے جوبیان کیا ہے اس کے علاوہ سب غلط ہیں تو یہ رویہ نہ تو دین ہے اور نہ ہی دین کی عکاسی کرنے والا ہ۔

 اس بحث میں یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ اس طرح تو کچھ لوگ احکام دین کی غلط تعبیرات لیتے ہیں تو پھر وہ بھی درست ہوئے جیسا کہ ہر دور میں اسلام دشمن طاقتیں کرتی رہی ہیں خاص طور پر مستشرقین اور منکرین حدیث مفہوم لیتے ہیں اور عقل کی پیروی میں دین کا حلیہ ہی بگاڑ کر رکھ  دیتے ہیں تو اس کے جواب میں گزارش یہ ہے کہ ۔۔۔۔ غلط اور صحیح کی صورت میں نتیجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں دین کا مزاج سیکھنا ہو گا ، دین کا اسلوب سیکھنا ہو گا  ۔

 یقینا یہ کام انتہائی مشکل ہے  اس کام کے لیے آپ کو !!!!!!! مسلکی ، گروہی ، خاندانی ، شخصی بنیادوں سے بہت اوپر جا کر سوچنا ہو گا ۔۔۔۔ ایک لمحے کے لیے تجدید ایمان کرتے ہوئے کلمہ پڑھ کر خود کو نچلی سطح پر بیٹھا کر جیسے ابھی ابھی کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے ہیں ایسی سوچ لے کر بیٹھنا ہو گا نہ  یہ کہ میں نے دس سال درس نظامی پڑھا ہے، میں شیخ الحدیث و التفسیر ہوں، مجھے پچاس سال ہو گئے دین پڑھاتے ہوئے،میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بن گیا ہوں ، میں نے مفتی کورس کر لیا ،میں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ کر لیا، لوگ میرے ہاتھ چومتے ہیں ، میرے دائیں بائیں گھومتے ہیں یہ سب باتیں انسان کو گمراہ کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتیں۔

مغرب میں اہل مغرب دین سے متنفر کیوں ہوئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

          اس سوال کا جواب لینے کے لیے کبھی اس اندز میں بھی سوچیں کہ آیا وہ مذہب جو مذہب کے پیشواوں نے پھیلایا تھا ، جس کی تعلیم اس مذہب کے پیشوا نے دی تھی  اگر سیدھی بات کی جائے تو کیا اہل مغرب کے ہاں اس وقت وہی مسیحیت (کہ جس سے اہل مغرب متنفر ہوئے تھے اور مذہب کو چھوڑا تو ترقی کی)  رائج تھی جو جناب مسیح عیسیٰ علیہ السلام نے پھیلائی تھی ، کیا اس وقت مذہب کے ٹھیکیدار مسیحیت کے مزاج کے مطابق فیصلے کرتے تھے یا اپنے مزاج کو ہی مذہب بنا کر پیش کرتے تھے ، جو اندھیر نگری یورپ میں ’’ڈارک ایجز‘‘ میں مچی ہوئی تھی اور پاپائیت اپنے عروج پر تھی کیا وہ  وہی مذہب تھا جس کی تعلیمات جناب مسیح ابن مریم علیھما السلام دے کر گئے تھے۔ ہر گز نہیں اس وقت لوگ اس مذہب سے متنفر ہوئے تھے جس میں پاپاوں کے مزاج  کی پیروی ہوتی تھی ، مذہبی تعلیمات مفقود تھیں اور مذہبی رہنماوں کی انائیں اور من مرضیاں ہی مذہب کا روپ دھار کر  معاشرے پر مسلط تھیں ۔ اس وقت لوگوں نے اسے ہی مذہب جانا اور اس سے متنفر ہوئے۔

                ہر گز کوئی الہامی مذہب فطرتی اصولوں کے خلاف نہیں ہوتا ۔

          اس دور میں دین اسلام کے حوالے سے لوگ چند طبقات میں تقسیم ہو گئے ہیں:

·       پہلا طبقہ وہ جو روایت پسند اور حقیقی معنوں میں اسلام کی پیروی چاہتا اور کرتا ہے

·       وہ طبقہ جو اپنی جہالت کی وجہ سے دین اسلام سے متنفر نظر آتا ہے

·       وہ طبقہ جو  چند مذہبی رہنماوں کے رویے کی وجہ سے دین سے دور نظر آتا ہے

·       وہ طبقہ جو دشمن کا آلہ کار نظر آتا ہے اور اس طبقے کے پھیلائے ہوئے تشکیک و تنقید کے ہتھکنڈے سے چند لوگ دین کواس سائنسی ترقی کے دور میں ترقی کا ذریعہ نہیں سمجھتے اور مثال یورپ کی پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے دین سے دوری اختیار کی تو ترقی کی (حالانکہ یہ سراسر غلط نظریہ ہے)

نتیجہ اور عملی تجاویز

 دین کی اصل روح تبھی باقی رہ سکتی ہے جب ہم:

·       شخصی مزاج کو دین سے الگ رکھیں۔

·       دین کو اصل مصادر (قرآن و سنت) سے سیکھیں۔

·       مسلکی یا ذاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر تحقیق کریں۔

·       اختلافِ رائے میں عاجزی اختیار کریں دوسروں کی رائے کا احترام کریں۔

·       دین کا مزاج سمجھنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے طرزِ عمل کو معیار بنائیں۔


تحریر : محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر، یونیورسٹی آپ ایجوکیشن لاہور)


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive