Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

11/12/20

اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناؤں :: ملک خداد کا حالِ زار :: زاغوں کے تصرف میں عقابوں کا نشیمن

اقبال ؒ! ترے دیس کا کیا حال سناؤں

 

دہقان تو مر کھپ گیا اب کس کو جگاؤں

ملتا ہے کہاں خوشہءگندم کہ جلاؤں

شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا

کنجشک فرومایہ کو اب کس سے لڑاؤں

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہر اک آنکھ میں شہتیر

مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر

توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں

اب ذوقِ یقیں سے کٹتی نہیں زنجیر

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

شاہیں کا جہاں آج کرگس کا جہاں ہے

ملتی ہوئی مُلّا سے مجاہد کی اذاں ہے

مانا کہ ستاروں سے بھی آگے ہیں جہاں اور

شاہیں میں مگر طاقتِ پرواز کہاں ہے

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

مر مر کی سلوں سے کوئی بیزار نہیں ہے

رہنے کو حرم میں کوئی تیار نہیں ہے

کہنے کو ہر اک شخص مسلمان ہے، لیکن

دیکھو تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

بیباکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن

مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن

جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو

وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

پیدا کبھی ہوتی تھی سحر جس کی اذاں سے

اس بندہ مومن کو میں اب لاں کہاں سے

!وہ سجدہ زمیں جس سے لرز جاتی تھی یارو

اک بار تھا ہم چھٹ گئے اس بارِ گراں سے

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

جھگڑے ہیں یہاں صوبوں کے ذاتوں کے نسب کے

اگتے ہیں تہِ سایہ گل خار غضب کے

یہ دیس ہے سب کا مگر اس کا نہیں کوئی

اس کے تنِ خستہ پہ تو اب دانت ہیں سب کے

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

محمودوں کی صف آج ایازوں سے پرے ہے

جمہور سے سلطانی جمہور ڈرے ہے

تھامے ہوئے دامن ہے یہاں جو بھی خودی کا

مر مر کے جئے ہے کبھی جی، جی کے مرے ہے

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

دیکھو تو ذرا محلوں کے پردوں کو اٹھا کر

شمشیر و سناں رکھی ہے طاقوں پہ سجا کر

آتے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے

تقدیرِ امم سو گئی طاس پہ آ کر

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

مکاری و عیاری و غداری و ہیجان

اب بنتا ہے ان چار عناصر سے مسلمان

قاری اسے کہنا تو بڑی بات ہے یارو!

اس نے تو کبھی کھول کے دیکھا نہیں قرآن

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

 

کردار کا گفتار کا اعمال کا مومن

قائل نہیں ایسے کسی جنجال کا مومن

سرحد کا ہے مومن کوئی بنگال کا مومن

ڈھونڈے سے بھی ملتا نہیں قرآن کا مومن

اقبالؒ! تیرے دیس کا کیا حال سناؤں

)امیر الاسلام ہاشمی(

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive