اپنی
پہچان کی تلاش : تہذیب، اقدار اور نئی نسل
عصرِ حاضر میں ایک نمایاں طبقہ ایسا ہے جو مغربی تہذیب،
مغربی اقوام کی ترقی، اور ان کے رسوم و رواج کو جدت پسندی اور نئے رجحانات سمجھ کر
نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ ان کا بھرپور دفاع اور پرچار بھی کرتا ہے۔ یہ رویہ کوئی
اچانک پیدا ہونے والی انہونی بات نہیں، بلکہ ایک تدریجی فکری تبدیلی کا نتیجہ ہے۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ذہنیت کے حامل افراد کے نزدیک اپنی معاشرتی اور تہذیبی
اقدار کی کوئی خاص وقعت باقی نہیں رہتی۔
ایسے لوگ تہذیب
کو محض چمک، رنگینی اور ظاہری دلکشی تک محدود کر دیتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی
دلچسپی نہیں ہوتی کہ ان کی اصل پہچان کیا ہے، ان کی تہذیب کن بنیادوں پر قائم ہے،
اور آنے والی نسلیں انہیں کس شناخت کے ساتھ یاد رکھیں گی۔ مستقبل میں اپنی اقدار
کے بقا کا سوال ان کے لیے غیر اہم بن جاتا ہے، حالانکہ یہی سوال کسی بھی قوم کے
وجود اور تسلسل کی ضمانت ہوتا ہے۔
درحقیقت یہ محض ایک فکری کمزوری نہیں بلکہ ایک نفسیاتی
اور عمرانی مسئلہ ہے، جس کی طرف دنیا کے ہر سنجیدہ ماہرِ عمرانیات توجہ دلاتا رہا
ہے۔ چاہے وہ مغرب کا دانشور ہو یا مشرق کا مفکر، مسلمان ہو یا غیر مسلم — سب اس
بات پر متفق ہیں کہ جو قوم اپنی تہذیبی بنیادوں سے کٹ جائے، وہ ترقی کے نام پر محض
نقل کا ایک بے روح نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔
عام طور پر وہ افراد اس فکری الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں
جو زندگی کو صرف ایک نسل یا اپنی ذاتی آسائشوں تک محدود کر کے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے
لباس، خوراک اور وقتی طرزِ زندگی ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو انسانیت
اور معاشروں کا مطالعہ نسل در نسل تسلسل کے تناظر میں کرتے ہیں، وہ تہذیب و تمدن
کو نہایت گہری نظر سے سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تہذیب کوئی فیشن نہیں بلکہ ایک
اجتماعی وراثت ہے، جو صدیوں میں تشکیل پاتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں نئی نسل کو خود سے چند بنیادی
سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے:
· ہم کون ہیں؟
· ہمارے معاشرتی تقاضے اور رجحانات کیا ہیں؟
· ہماری تہذیب کن اصولوں پر قائم ہے؟
· ہماری اقدار کیا ہیں اور ان کی اہمیت کیوں
ہے؟
· معاشرے کیسے وجود میں آتے ہیں اور کیوں
قائم رہتے ہیں؟
اسلام
ان تمام سوالات کا نہایت واضح اور متوازن جواب دیتا ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام محض
عبادات تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ اسلام ایک ایسا تہذیبی
تصور پیش کرتا ہے جس میں خاندان، حیا، عدل، امانت، احترامِ انسانیت، اور اجتماعی
ذمہ داری بنیادی اقدار ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو فرد کو بھی سنوارتے ہیں اور معاشرے
کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔
اسلام اس لیے اپنی معاشرتی اقدار اور نظام کی پیروی پر
زور دیتا ہے کہ یہی اقدار انسان کو محض صارف نہیں بلکہ ذمہ دار انسان بناتی ہیں۔ یہی
نظام فرد کو اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی حدود بھی سکھاتا ہے، اور معاشرے کو
انتشار کے بجائے ہم آہنگی عطا کرتا ہے۔
نئی نسل کے لیے
اصل چیلنج یہ نہیں کہ وہ جدید دنیا سے کیسے جڑے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ وہ اپنی
پہچان کے ساتھ جدید دنیا میں کیسے قدم رکھے۔ ترقی کو اپنانا جرم نہیں، مگر اپنی
تہذیب کو چھوڑ دینا ایک خاموش خودکشی ہے۔ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو زمانے کے
ساتھ چلتی ضرور ہیں، مگر اپنی جڑوں سے کبھی کٹتی نہیں۔
آج ضرورت اس
بات کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے دل میں یہ شعور بیدار کریں کہ اپنی اقدار بوجھ نہیں،
طاقت ہوتی ہیں۔ یہی اقدار ہمیں ماضی سے جوڑتی ہیں، حال کو معنی دیتی ہیں، اور
مستقبل کو سمت عطا کرتی ہیں۔
اسلام
اپنے معاشرتی نظام کو اہمیت کیوں دیتا ہے؟
اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے غیر معمولی اہمیت دیتا
ہے کہ وہ انسان کو محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک ذمہ دار سماجی وجود سمجھتا ہے۔ اسلام
کے نزدیک انسان کی شخصیت تنہائی میں نہیں بنتی، بلکہ خاندان، معاشرے اور اجتماعی
ماحول میں تشکیل پاتی ہے۔ اس لیے اگر معاشرہ درست اصولوں پر قائم نہ ہو تو فرد کی
اصلاح بھی ممکن نہیں رہتی۔
اسلام جانتا ہے کہ عقائد اور عبادات کا اثر اسی وقت
مکمل اور پائیدار ہوتا ہے جب وہ ایک صحت مند معاشرتی ڈھانچے کے اندر پروان چڑھیں۔
اگر معاشرہ ظلم، بے حیائی، خود غرضی اور اخلاقی انتشار کا شکار ہو تو فرد کی دینداری
محض ایک ذاتی عمل بن کر رہ جاتی ہے، جس کا اجتماعی زندگی پر کوئی اثر باقی نہیں
رہتا۔ اسی لیے اسلام ایک ایسے معاشرتی نظام کی تشکیل پر زور دیتا ہے جو ایمان کو
عملی زندگی میں ڈھال دے۔
اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد چند بنیادی اقدار پر قائم
ہے: عدل، حیا، امانت، احترامِ انسانیت، خاندانی نظام، باہمی تعاون اور اجتماعی ذمہ
داری۔ یہ اقدار اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کی فطرت محض آزادی نہیں بلکہ توازن چاہتی
ہے۔ اسلام فرد کو آزادی بھی دیتا ہے مگر اسے اخلاقی حدود کے ساتھ مشروط کرتا ہے،
تاکہ ایک فرد کی آزادی دوسرے فرد کے حقوق کو پامال نہ کرے۔
اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے بھی اہمیت دیتا ہے
کہ وہ نسلِ انسانی کے تسلسل اور اخلاقی بقا کی ضمانت بنتا ہے۔ خاندان کا مضبوط
نظام، نکاح کی ترغیب، والدین اور اولاد کے حقوق، عورت اور مرد کے باوقار کردار — یہ
سب ایسے عناصر ہیں جو معاشرے کو وقتی لذت کے بجائے طویل المدت استحکام عطا کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو خاندان کو کمزور اور
فرد کو تنہا کر دیتے ہیں۔
مزید یہ کہ اسلام معاشرتی نظام کے ذریعے صرف مسلمانوں ہی
نہیں بلکہ تمام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ عدل و انصاف، کمزوروں کا تحفظ، یتیموں
اور مسکینوں کی کفالت، پڑوسیوں کے حقوق، اور سماجی انصاف — یہ سب اسلامی معاشرت کا
حصہ ہیں۔ یوں اسلامی نظام معاشرے کو طاقتور اور کمزور کے درمیان کشمکش کے بجائے
رحمت اور توازن پر قائم کرتا ہے۔
اسلام اس لیے بھی اپنے معاشرتی نظام کی پیروی پر زور دیتا
ہے کہ یہی نظام امت کو ایک مشترکہ شناخت اور اجتماعی شعور عطا کرتا ہے۔ جب ایک
معاشرہ مشترکہ اقدار پر متحد ہوتا ہے تو وہ فکری انتشار، تہذیبی شکست اور اخلاقی
غلامی سے محفوظ رہتا ہے۔ یہی مشترکہ اقدار امت کو ایک سمت دیتی ہیں اور اسے تاریخ
میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔
مختصراً،
اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ وہ:
· فرد کی اصلاح کو اجتماعی اصلاح سے جوڑتا ہے
· آزادی اور اخلاق کے درمیان توازن قائم کرتا
ہے
· نسلوں کی بقا اور تہذیبی تسلسل کو محفوظ
بناتا ہے
· اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جو عدل،
رحمت اور ذمہ داری پر قائم ہو۔
یہی
وہ حکمت ہے جس کی بنا پر اسلام اپنے معاشرتی نظام کو محض ایک انتخاب نہیں بلکہ
زندگی کی ناگزیر ضرورت قرار دیتا ہے۔
روشن
خیالی یا فکری بے سمتی؟
کچھ لوگ اہلِ مغرب اور دیگر اقوام کے تہواروں، رجحانات
اور طرزِ زندگی کو اپنانے کو روشن خیالی، ترقی پسندی اور ذہنی وسعت کی علامت
سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک نئے تہوار منانا، غیر مانوس رسمیں اختیار کرنا اور اپنی
تہذیب سے فاصلہ پیدا کرنا ایک جدید انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ہر
نئی چیز واقعی ترقی ہوتی ہے؟ اور کیا ہر اپنایا ہوا رجحان ہمیں واقعی آگے لے جاتا
ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ تہوار محض تفریح یا رنگینی کا نام نہیں
ہوتے، بلکہ وہ ہر قوم کے عقائد، تاریخ اور اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب
کوئی قوم اپنے تہوار چھوڑ کر دوسروں کے تہواروں کو فخر سے اپناتی ہے تو وہ دراصل
اپنی تاریخ، اپنے نظریے اور اپنی شناخت کو پسِ پشت ڈال رہی ہوتی ہے۔ یہ عمل آزادیِ
فکر نہیں بلکہ فکری غلامی کی ایک خاموش شکل ہے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ جو اقوام دنیا میں اپنی تہذیب
اور شناخت پر فخر کرتی ہیں، وہی حقیقی معنوں میں باوقار اور مستحکم رہتی ہیں۔
جاپان، چین، یہود اور مغربی اقوام خود اپنے تہواروں اور ثقافتی علامات پر کبھی
شرمندہ نہیں ہوتیں، پھر آخر ہم ہی کیوں اپنی اقدار کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں؟ کیا
ہماری عیدیں، ہمارے دینی شعائر، ہمارے تہذیبی مظاہر کسی بھی طرح انسانیت، اخلاق
اور روحانیت سے خالی ہیں؟
اصل روشن خیالی یہ نہیں کہ انسان ہر آنے والے رجحان کے
ساتھ بہہ جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر انتخاب کرے۔ روشن دماغ وہ ہوتا ہے جو
نئی چیز کو اپنی تہذیب کے ترازو میں تولے، نہ کہ اپنی تہذیب کو ہر نئی چیز پر
قربان کر دے۔ جس معاشرے کے پاس اپنا معیار نہ ہو، وہ دوسروں کے معیار کا محتاج بن
جاتا ہے۔
اسلام نے انسان
کو اندھی تقلید سے روکا ہے اور اسے شعور، مقصد اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے۔ اسلام
انسان کو اپنی شناخت مٹانے کا نہیں بلکہ اپنی پہچان کے ساتھ دنیا میں جینے کا درس
دیتا ہے۔ اپنی تہذیب اور اقدار کو اپنانا تنگ نظری نہیں، بلکہ اپنی فکری خودمختاری
کا اعلان ہے۔
نئی نسل کے لیے
لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ محض صارف بن کر تہوار منانا چاہتی ہے یا ایک
باوقار امت کا فرد بن کر اپنی اقدار کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رکھیے، وہ قوم جو
دوسروں کے تہواروں پر فخر کرے اور اپنے شعائر پر شرمندہ ہو، وہ آہستہ آہستہ تاریخ
کے حاشیے پر چلی جاتی ہے۔
آئیے
روشن خیالی کی نئی تعریف کریں: روشن خیالی یہ نہیں کہ ہم اپنی تہذیب کو چھوڑ دیں،
بلکہ روشن خیالی یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی روشنی میں دنیا کو دیکھیں۔
ایک اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ جب کچھ لوگ غیر اقوام
کے تہواروں اور رجحانات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں تو ہمارا ردِعمل اکثر ایک محدود
دائرے میں قید ہو جاتا ہے۔ فوراً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کام شرعاً جائز
ہے یا ناجائز؟ یہ سوال اور بحث اپنی جگہ ضرور اہم ہے لیکن ایک اور اہم اور بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے کہ یہ رویہ
ہماری تہذیب، ہماری شناخت اور ہمارے اجتماعی شعور کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ ہر مسئلہ صرف فقہی دائرے میں حل نہیں
ہوتا۔ فقہ انسان کے افعال کے شرعی احکام بیان کرتی ہے، مگر تہذیب اور تمدن کا
معاملہ اس سے کہیں وسیع تر ہوتا ہے۔ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر کسی صریح
شرعی ممانعت کے تحت نہیں آتے، لیکن وہ آہستہ آہستہ ایک قوم کی فکری سمت، تہذیبی
ذوق اور اجتماعی اقدار کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اگر ہم صرف جائز یا ناجائز کی بحث میں
الجھے رہیں اور اس کے تہذیبی اثرات کو نظر انداز کر دیں تو ہم مسئلے کی جڑ تک کبھی
نہیں پہنچ سکیں گے۔
سوال
یہ ہے کہ کیا یہ طرزِ عمل ہمیں اپنی تہذیب سے قریب کر رہا ہے یا دور؟
کیا
یہ ہماری آنے والی نسل کو اپنی اقدار سے جوڑ رہا ہے یا اجنبی بنا رہا ہے؟
کیا
یہ ہمیں ایک باوقار امت کے طور پر مضبوط کر رہا ہے یا فکری طور پر منتشر؟
یہی وہ سوالات ہیں جن پر ہر باشعور معاشرہ غور کرتا ہے۔
دنیا کی زندہ قومیں کسی عمل کو محض اس بنیاد پر قبول نہیں کرتیں کہ وہ قانوناً
ممکن ہے، بلکہ اس بنیاد پر پرکھتی ہیں کہ وہ عمل ان کی تہذیبی روح کے موافق ہے یا
نہیں۔ افسوس کہ ہم نے اس اجتماعی شعور کو رفتہ رفتہ کمزور کر دیا ہے۔
اسلام بھی انسان کو محض احکام کی فہرست نہیں دیتا، بلکہ
اسے ایک مکمل تہذیبی مزاج عطا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مقصد یہ نہیں کہ انسان
صرف گناہ سے بچے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت، ذوق اور ترجیحات میں بھی اسلام کی
نمائندگی کرے۔ اسی لیے اسلام تشبّہ، اندھی تقلید اور فکری غلامی سے روکتا ہے، چاہے
وہ بظاہر کسی واضح حرمت کے دائرے میں نہ بھی آتی ہو۔
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم گفتگو کا رخ بدلیں۔ بحث صرف یہ نہیں
ہونی چاہیے کہ یہ کام جائز ہے یا نہیں، بلکہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ یہ کام ہمیں کس
طرف لے جا رہا ہے۔ اگر کوئی عمل ہماری تہذیب کو مٹاتا، ہماری اقدار کو کمزور کرتا
اور ہماری نئی نسل کو اپنی پہچان سے دور کرتا ہے تو وہ عمل خواہ وقتی طور پر
“جائز” سمجھا جائے، تہذیبی طور پر تباہ کن ہو سکتا ہے۔
آج
ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ ہم فقہی شعور کے ساتھ ساتھ تہذیبی شعور کو بھی
زندہ کریں۔ کیونکہ قومیں صرف فتوؤں سے نہیں، بلکہ اپنی تہذیبی بصیرت سے زندہ رہتی
ہیں۔
تحقیق
و تدوین: محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن
لاہور) (سی ای او فاؤنڈر:المعین ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار اسلامک آئیڈیالوجی)









بہت خوب
ReplyDelete