Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

3/6/21

رسول اللہ ﷺ کی شفاعت کبری | شفاعت کا بیان | احادیث مبارکہ اور شفاعت | عقیدہ شفاعت | احادیث کی روشنی میں شفاعت رسول ﷺ

من ذا لذی یشفع عندہ الا باذنہ:۔۔ کون ہے جو اللہ کے سامنے سفارش کر سکے مگر وہ جسے وہ اجازت دے دے

1: حدیث پاک :امام احمد بسند صحیح اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے اور ابنِ ماجہ حضرتِ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سےروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خُیّرتُ بَینَ الشَّفَاعةِ وَ بَینَ اَن یَّدخُلَ نِصفُ اُمَّتِیَ الجَنَۃَ فَختَرتُ الشَّفَاعَۃَ لِاَنَّھَااَعَمُّ وَ اَکفیٰ تَرَونَھَا لِلمُتَّقِینَ وَ لٰکِنَّھَا لِلمُذنِبِنَ الخَطَّائِینَ المُتَلَوِّثِینَ

ترجمہ: اللّه تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا کہ یا تو شفاعت لو یا یہ کہ تمھاری آدھی امت جنت میں جائے ،میں نے شفاعت لی کہ وہ زیادہ تمام اور زیادہ کا م آنے والی ہے ۔کیا تم یہ سمجھ لئے ہو کہ میری شفاعت پاکیزہ مسلمانوں کے لئے ہے ۔نہیں بلکہ وہ ان گناہ گاروں کے واسطے ہے جو گناہوں میں آلودہ اور سخت خطاکار ہیں۔

2: حدیث پاک :عن انس بن مالک شَفَاعَتِی٘ یَو٘مَ ال٘قِیٰمَةِ لِاَ ھ٘لِ ال٘کَبَائِرِ مِن٘ اُمَّتِی٘

1: ترمذي، الجامع الصحیح، کتاب صفۃ القیامۃ، باب فی الشفاعۃ، 4: 625، رقم: 2435

2: أبوداود، السنن، کتاب السنۃ، باب فی الشفاعۃ، 4: 236، رقم: 4739

3: أحمد بن حنبل، المسند، 3: 213، رقم: 13222

4: طبراني، المعجم الأوسط، 5: 75، رقم: 4713 (یہ روایت حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔)

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری شفاعت قیامت کے دن میری امت میں سے بڑے گناہ کرنے والوں کے لیے ہے۔

3: حدیث پاک:عن انس بن مالک: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُھُمْ فِیْ بَعْضٍ. فَیَأْتُوْنَ آدَمَ، فَیَقُوْلُوْنَ: إِشْفَعْ لَنَا إِلَی رَبِّکَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِإِبْرَاھِیْمَ فَإِنَّهُ خَلِیْلُ الرَّحْمٰنِ. فَیَأْتُوْنَ إِبْرَاھِیْمَ، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُوْسَی فَإِنَّهُ کَلِیْمُ اللهِ. فَیَأْتُوْنَ مُوْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِعِیْسَی فَإِنَّهُ رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ. فَیَأْتُوْنَ عِیْسَی، فَیَقُوْلُ: لَسْتُ لَھَا، وَلَکِنْ عَلَیْکُمْ بِمُحَمَّدٍ صلی الله علیه وآله وسلم.  فَیَأْتُوْنَنِی فَأَقُوْلُ: أَنَا لَھَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَی رَبِّي، فَیُؤْذَنُ لِي، وَیُلْھِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِھَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، وَ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا۔ فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! إِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیُقَالُ: اِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہِ مِثْقَالُ شَعِیْرَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فأَفْعَلُ۔ ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیُقَالُ: اِنْطَلِقْ فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ کَانَ فِی قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ أَوْ خَرْدَلَۃٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ، فَأَفْعَلُ. ثُمَّ أَعُوْدُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ لَکَ، وَ سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِی أُمَّتِی، فَیَقُوْلُ: اِنْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ کَانَ فِي قَلْبِہٖ أَدْنَی أَدْنَی أَدْنَی مِثْقَالِ حَبَّۃِ خَرْدَلٍ مِنْ إِیْمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ.  فَلَمَّا خَرَجْنَا مِنْ عِنْدِ أَنَسٍ قُلْتُ لِبَعْضِ أَصْحَابِنَا: لَوْ مَرَرْنَا بِالْحَسَنِ، وَ ھُوَ مُتَوَارٍ فِی مَنْزِلِ أَبِي خَلِیْفَةَ، فَحَدَّثْنَاهُ بِمَا حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ، فَأَتَیْنَاهُ فَسَلَّمْنَا عَلَیْہِ، فَأَذِنَ لَنَا۔ فَقُلْنَا لَهُ: یَا أَبَاسَعِیْدٍ! جِئْنَاکَ مِنْ عِنْدِ أَخِیْکَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، فَلَمْ نَرَ مِثْلَ مَا حَدَّثَنَا فِی الشَّفَاعَۃِ۔ فَقَالَ: ھِیْہِ، فَحَدَّثْنَاهُ بِالْحَدِیْثِ، فَانْتَھَی إِلَی ھَذَا الْمَوْضِعِ. فَقَالَ: ھِیْہِ، فَقُلْنَا لَهُ: لَمْ یَزِدْ لَنَا عَلَی ھَذَا، فَقَالَ: لَقَدْ حَدَّثَنِی وَ ھُوَ جَمِیْعٌ مُنْذُ عِشْرِیْنَ سَنَۃً، فَـلَا أَدْرِی: أَنَسِیَ ، أَمْ کَرِهَ أَنْ تَتَّکِلُوْا۔ فَقُلْنَا: یَا أَبَا سَعِیْدٍ! فَحَدِّثْنَا، فَضَحِکَ، وَ قَالَ: خُلِقَ الْإِنْسَانُ عَجُوْلًا، مَا ذَکَرْتُهُ إِلَّا وَأَنَا أُرِیْدُ أَنْ أُحَدِّثَکُمْ، حَدَّثَنِی کَمَا حَدَّثَکُمْ بِہِ.  قَالَ: ثُمَّ أَعُوْدُ الرَّابِعَةَ، فَأَحْمَدُهُ بِتِلْکَ الْمَحَامِدِ، ثُمَّ أَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَیُقَالُ: یَا مُحَمَّدُ! اِرْفَعْ رَأْسَکَ، وَ قُلْ یُسْمَعْ، وَ سَلْ تُعْطَهْ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! اِئْذَنْ لِي فِیْمَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، فَیَقُوْلُ: وَ عِزَّتِي وَجَلَالِي، وَ کِبْرِیَائِي وَعَظَمَتِي: لَأُخْرِجَنَّ مِنْھَا مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ.

1: بخاری، الصحیح، کتاب التوحید، باب کلام الرب ل یوم القیامۃ مع الأنبیاء وغیرھم، 6: 2727، رقم: 7072

2: مسلم، الصحیح، کتاب الإیمان، باب أدنٰی أھل الجنۃ منزلۃ، 1: 182۔184، رقم: 193

3: نسائي، السنن الکبریٰ، 6: 330، رقم: 11131

ترجمہ:انس ابن مالک سے مروی ہے:  ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز لوگ دریا کی موجوں کی مانند بے قرار ہوں گے۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کریں گے: آپ اپنے رب کی بارگاہ میں ہماری شفاعت کیجئے، وہ فرمائیں گے: یہ میرا مقام نہیں، تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ اللہ کے خلیل ہیں۔ پس لوگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوجائیں گے جس پر وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ کلیم اللہ ہیں۔ پس وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں جائیں گے وہ فرمائیں گے: میرا منصب یہ نہیں ہے تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ کیونکہ وہ روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں۔ پس وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے تو وہ بھی فرمائیں گے: میرا یہ مقام نہیں ہے تم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاؤ۔  ’’پس لوگ میرے پاس آئیں گے تو میں کہوں گا: ہاں! آج شفاعت کا منصب تو میرے پاس ہی ہے۔ پھر میں اپنے رب سے اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت مل جائے گی اور مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام کئے جائیں گے جن کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا جو اب مجھے مستحضر نہیں ہیں۔ پس میں ان محامد سے اﷲ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ سو مجھے کہا جائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیے اور کہو! تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت، پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے نکال لو جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ میں جاکر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر ان محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا کروں گا اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ پس کہا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت! پس فرمایا جائے گا: جاؤ اور جہنم سے اسے بھی نکال لو جس کے دل میں ذرے کے برابر یا رائی کے برابر بھی ایمان ہو۔ پس میں جاکر ایسے ہی کروں گا۔ پھر واپس آکر انہی محامد کے ساتھ اس کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور پھر اس کے حضور سجدے میں چلاجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری سنی جائے گی، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، پس وہ فرمائے گا: جاؤ اور اسے بھی جہنم سے نکال لو جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی بہت ہی کم، بہت ہی کم، بہت ہی کم ایمان ہو۔ پس میں خود جاؤں گا اور جا کر ایسا ہی کروں گا۔  ’’راوی کہتے ہیں: جب ہم حضرت انس رضی اللہ عنہ کے پاس سے نکلے تو میں نے اپنے بعض ساتھیوں سے کہا: ہمیں حسن بصری کے پاس چلنا چاہئے جو کہ ابوخلیفہ کے مکان میں روپوش ہیں اور انہیں وہ حدیث بیان کرنی چاہئے جو انس بن مالک نے ہم سے بیان کی ہے۔ چنانچہ ہم ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کیا پھر انہوں نے ہمیں اجازت دی تو ہم نے ان سے کہا: ابو سعید! ہم آپ کے پاس آپ کے بھائی انس بن مالک کے ہاں سے ہوکر آئے ہیں اور انہوں نے ہم سے جو شفاعت کے متعلق حدیث بیان کی اس جیسی حدیث ہم نے آج تک نہیں سنی۔ انہوں نے فرمایا مجھے بھی سناؤ: ہم نے ان سے حدیث بیان کی جب اس مقام تک پہنچے تو انہوں نے کہا: آگے بیان کرو، ہم نے کہا: اس سے زیادہ انہوں نے بیان نہیں کیا۔ انہوں نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ آج سے بیس سال قبل جب صحت مند تھے تو انہوں نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی تھی، مجھے معلوم نہیں کہ وہ باقی بھول گئے یا اس لئے بیان کرنا ناپسند کیا کہ کہیں لوگ صرف اسی پر بھروسہ نہ کر بیٹھیں۔ ہم نے کہا: ابو سعید! پھر آپ ہم سے وہ حدیث مکمل بیان کیجئے اس پر آپ ہنسے اور فرمایا: انسان عجلت پسند پیدا کیا گیا ہے۔ میں نے اس کا ذکر ہی اس لئے کیا ہے کہ تم سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ انس نے مجھ سے اس طرح حدیث بیان کی جس طرح تم سے بیان کیا۔  ’’(اس میں یہ اضافہ کیا کہ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں چوتھی دفعہ واپس لوٹوں گا اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا پھر اس کے حضور سجدہ ریز ہوجاؤں گا۔ پس فرمایا جائے گا: محمد! اپنا سر اٹھاؤ اور کہو تمہیں سنا جائے گا، مانگو تمہیں دیا جائے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: یا رب ! مجھے ان کی (شفاعت کی) اجازت بھی دیجئے جنہوں نے صرف لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے، پس وہ فرمائے گا: مجھے اپنی عزت و جلال اور اپنی کبریائی وعظمت کی قسم! میں انہیں ضرور دوزخ سے نکال دوں گا جنہوں نے لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ کہا ہے۔‘‘

4: حدیث پاک: جَلَسَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله علیه وآله وسلم یَنْتَظِرُوْنَهُ، قَالَ: فَخَرَجَ حَتَّی إِذَا دَنَا مِنْھُمْ سَمِعَھُمْ یَتَذَاکَرُوْنَ، فَسَمِعَ حَدِیْثَھُمْ، فَقَالَ بَعْضُھُمْ: عَجَباً إِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ اتَّخَذَ مِنْ خَلْقِہِ خَلِیْلًا، اِتَّخَذَ إِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلًا. وَ قَالَ آخَرُ: مَاذَا بِأَعْجَبَ مِنْ کَلَامِ مُوْسٰی کَلَّمَهُ تَکْلِیْماً، وَ قَالَ آخَرُ: فَعِیْسٰی کَلِمَۃُ اللهِ وَ رُوْحُهُ، و قَالَ آخَرُ: آدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ، فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ فَسَلَّمَ و قَالَ: قَد سَمِعْتُ کَلَامَکُمْ و عَجَبَکُمْ إِنَّ إِبْرَاہِیْمَ خَلِیْلُ اللهِ وھُوَ کَذٰلِکَ، وَمُوْسٰی نَجِيُّ اللهِ وَ ھُوَ کَذٰلِکَ، وَعِیْسٰی رُوْحُ اللهِ وَکَلِمَتُهُ وَھُوَ کَذٰلِکَ، وَآدَمُ اصْطَفَاهُ اللهُ وَ ھُوَ کَذٰلِکَ، أَ لَا! وَ أَناَ حَبِیْبُ اللهِ وَلَا فَخْرَ، و أَناَ حَامِلُ لِوَائِ الْحَمْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَ أَوَّلُ مُشَفَّعٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا فَخْرَ، وَ أَنَا أَوَّلُ مَنْ یُحَرِّکُ حِلَقَ الْجَنَّۃِ فَیَفْتَحُ اللهُ لِي فَیُدْخِلُنِیْھَا وَ مَعِيَ فُقَرَائُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا فَخْرَ، وَ أَنَا أَکْرَمُ الأَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ وَلَا فَخْرَ.

1: ترمذی، الجامع الصحیح، کتاب المناقب، باب فی فضل النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، 5: 587، رقم: 3616

2: دارمی، السنن، 1: 39، رقم: 47

3: ابن کثیر، نھایۃ بدایۃ النھایۃ، 10: 439،

4: ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم ، 1: 561

ترجمہ: چند صحابہ کرامث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے قریب پہنچے تو انہیں گفتگو کرتے ہوئے سنا، (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا) ان میں سے بعض نے کہا: تعجب کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے اپنا خلیل بنایا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا: یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اللہ تعالیٰ سے ہمکلام (کلیم اللہ) ہونے سے زیادہ تعجب خیز تو نہیں۔ ایک نے کہا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں، کسی نے کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، سلام کیا اور فرمایا: میں نے تمہاری گفتگو اور تمہارا اظہارِ تعجب سن لیا ہے۔ بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں، اور واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نجی اللہ ہیں، بے شک وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہیں، واقعی وہ اسی طرح ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا، وہ بھی یقیناً اسی طرح ہیں۔ مگر سنو! اچھی طرح آگاہ ہو جائو کہ (میری شان یہ ہے) میں اللہ کا حبیب ہوں اور (اس پر) کوئی فخر نہیں، میں قیامت کے دن (اللہ تعالیٰ کی) حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور مجھے کوئی فخر نہیں، قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت کرنے والا میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی اور مجھے کوئی فخر نہیں، سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا بھی میں ہوں تو اللہ تعالیٰ اسے میری لئے کھول دے گا پس مجھے اس میں داخل کر دے گا اور میرے ساتھ فقیرو غریب مؤمن ہوں گے اور مجھے اس پر بھی کوئی فخر نہیں، میں اولین و آخرین میں سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں لیکن میں کوئی فخر نہیں کرتا۔‘‘

5: حدیث پاک: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  لِلْأَنْبِیَائِ مَنَابِرُ مِنْ ذَھَبٍ، قَالَ: فَیَجْلِسُوْنَ عَلَیْھَا وَیَبْقٰی مِنْبَرِي لَا أَجْلِسُ عَلَیْہِ أَوْ لَا أَقْعُدُ عَلَیْہِ، قَائِمًا بَیْنَ یَدَيَّ رَبِّي مَخَافَۃً أَنْ یَبْعَثَ بِيْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَ یَبْقٰی أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي، فَأَقُوْلُ: یَا رَبِّ! أُمَّتِي أُمَّتِي، فَیَقُوْلُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ: یَا مُحَمَّدُ! مَا تُرِیْدُ أَنْ أَصْنَعَ بِأُمَّتِکَ؟ فَأَقُوْلُ یَا رَبِّ عَجِّلْ حِسَابَھُمْ، فَیُدْعٰی بِھِمْ فَیُحَاسَبُوْنَ، فَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَۃِ اللهِ، وَمِنْھُمْ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَتِي فَمَا أَزَالُ أَشْفَعُ حَتَّی أُعْطٰی صِکَاکًا بِرِجَالٍ قَدْ بُعِثَ بِھِمْ إِلَی النَّارِ، وَآتِي مَالِکًا خَازِنَ النَّارِ فَیَقُوْلُ: یَا مُحَّمَدُ! مَا تَرَکْتَ لِلنَّارِ لِغَضَبِ رَبِّکَ فِی أُمَّتِکَ مِنْ بَقِیَّۃٍ.

1: حاکم، المستدرک، 1: 135، رقم: 220 (امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔)

2: طبراني، المعجم الأوسط، 3: 208، رقم: 2937

3: طبرانی، المعجم الکبیر، 10: 317، رقم: 10771

ترجمہ: (قیامت کے دن) تمام انبیاء علیہم السلام کے لئے سونے کے منبر بچھائے جائیں گے وہ ان پر بیٹھیں گے، اور میرا منبر خالی رہے گا میں اس پر نہ بیٹھوں گا بلکہ اپنے رب کریم کے حضور کھڑا رہوں گا اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے جنت میں بھیج دے اور میری امت میرے بعد (کہیں بے یار و مددگار) رہ جائے۔ پس میں عرض کروں گا: اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: محمد( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! آپ کی کیا مرضی ہے، آپ کی امت کے ساتھ کیا سلوک کروں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: میں عرض کروں گا: اے میرے رب! ان کا حساب جلدی فرما دے۔ پس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب ہو گا، کچھ ان میں سے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور کچھ میری شفاعت سے۔ میں شفاعت کرتا رہوں گا یہاں تک کہ مجھے ان کی رہائی کا پروانہ بھی عطا کر دیا جائے گا جنہیں دوزخ میں بھیجا جا چکا ہو گا، جب میں داروغۂ جہنم کے پاس آؤں گا تو وہ عرض کرے گا: اے محمد! آپ نے اپنی امت میں سے کوئی بھی دوزخ میں باقی نہیں چھوڑا جس پر اللہ رب العزت ناراض ہو۔‘‘

6: حدیث پاک : حضرت علی کرم اﷲ وجھہ الکریم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  أَشْفَعُ لِأُمَّتِي حَتَّی یُنَادِیَنِي رَبِّي فَیَقُوْلُ: أَرَضِیْتَ یَا مُحَمَّدُ؟ فَأَقُوْلُ: نَعَمْ رَضِیْتُ. 

1: طبرانی، المعجم الأوسط، 3: 44، رقم: 2084

2: بزار، المسند، 2: 240، رقم: 638

3: ابن کثیر، نھایۃ بدایۃ النھایۃ، 10: 457

ترجمہ: ’’میں اپنی امت کے لئے شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ میرا رب مجھے ندا دے کر پوچھے گا: محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )! کیا آپ راضی ہوگئے؟ چنانچہ میں عرض کروں گا: ہاں! میں راضی ہوگیا۔‘‘

 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive