بات
میں اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ایک قرآنی اور صوفیانہ راز
اچھی
بات بھی کیوں بے اثر ہو جاتی ہے؟ جانئیے اصل وجہ
نصیحت
میں اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ایک اہم نفسیاتی اور دعوتی پہلو
اکثر
ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کتنی ہی عمدہ، مدلل اور خیرخواہانہ نصیحت کیوں نہ کرے،
مخاطب کے دل پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ بسا اوقات انسان سچی بات کہتا ہے، حق بات پر
زور دیتا ہے، لیکن مخاطب کے دل میں وہ بات اُترتی نہیں، بلکہ کبھی الٹا ردعمل بھی
سامنے آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس
کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جس کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں، وہ ہماری
ذات سے مانوس نہیں ہوتا، اس کے اور ہمارے درمیان کوئی تعلق، انسیت، یا اعتماد کا
رشتہ موجود نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں "مشورہ دینے والا" تو سمجھتا ہے، لیکن
"خیرخواہ" نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ ہمارے باطن سے واقف نہیں، وہ ہماری
محبت کو محسوس نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بات میں اثر پیدا نہیں ہوتا،
چاہے وہ بات کتنی ہی عمدہ اور سچی کیوں نہ ہو۔
مانوسیت:
نصیحت کی بنیاد
یہ
ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ انسان سب سے پہلے بات سے زیادہ "بات کرنے والے"
کو دیکھتا ہے۔ اگر بات کرنے والا اس کے لیے نیا، اجنبی، یا ناصح بن کر اچانک سامنے
آ جائے، تو مخاطب کے دل میں ایک طرح کی مدافعت (defensiveness) پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر وہی بات اس شخص کی طرف سے آئے جس سے
دل میں محبت ہو، مانوسیت ہو، انسیت ہو، تو وہ بات دل میں اُتر جاتی ہے۔
اس
لیے مؤثر نصیحت کا پہلا زینہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی ذات کو مانوس بنائے۔ مخاطب
کو یہ محسوس ہو کہ یہ شخص میری خیرخواہی چاہتا ہے، میری اصلاح کا سچا ارادہ رکھتا
ہے، میری شخصیت کو رد نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔
نبوی
حکمت: "لقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ"
قرآنِ
کریم کی آیت "لَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا
مِّن قَبْلِهِ" (القرآن، سورۃ یونس : 16) میں
ایک گہری دعوتی حکمت چھپی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے توحید کا پیغام دیا تو قریش نے
اعتراضات اٹھائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تو تمہارے درمیان ایک عمر تک
رہا ہوں، اس سے پہلے (میں نے کوئی جھوٹ یا گمراہی کی بات نہیں کی)، تو تم کیوں نہیں
سمجھتے؟"
اس
آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ نبی ﷺ کی بات میں اس لیے اثر تھا
کہ وہ قوم آپ ﷺ سے پہلے سے مانوس تھی، آپ کی سچائی، دیانت، شرافت، اور حسنِ اخلاق
سے واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا، کبھی دھوکہ نہیں دیتا۔
اس لیے جب آپ ﷺ نے کلمۂ توحید پیش کیا تو اگرچہ ان کے مفادات کی وجہ سے انکار کیا،
لیکن دلوں میں آپ کی سچائی کا اعتراف موجود تھا۔ یہی مانوسیت، یہی تعلق، دعوت کی
کامیابی کی پہلی شرط ہے۔
نصیحت
کا اثر کن پر ہوتا ہے؟
کبھی
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمیں جانتا تک نہیں، نہ ہم نے کبھی اسے دیکھا نہ اس
سے کوئی سابقہ رہا، لیکن اس کی بات دل میں اُتر جاتی ہے، اس کی زبان میں عجب کشش
ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص عمومی طور پر لوگوں کے دلوں میں
محبوب ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں اخلاص، انکساری، حسنِ اخلاق، اور خیرخواہی کی جھلک
ہوتی ہے۔ گویا وہ اپنی پوری زندگی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکا ہوتا ہے۔ تب
اُس کی بات دلوں پر اثر ڈالتی ہے، اگرچہ سننے والا اُس سے مانوس نہ بھی ہو۔
یہی
وجہ ہے کہ کچھ شخصیات کا صرف بولنا ہی نہیں، خاموش رہنا بھی متاثر کرتا ہے، کیونکہ
ان کی شخصیت کی بنیاد اخلاص، محبت، اور سچائی پر قائم ہوتی ہے۔
دعوت
و اصلاح کا اصل اصول
اسلامی
دعوت کا اصول یہی ہے کہ پہلے تعلق بناؤ، دل میں جگہ پیدا کرو، اعتماد قائم کرو،
پھر بات کرو۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے 40 سالہ کردار سے اس اصول کو
اپنایا۔ دعوت کے میدان میں کامیابی کی کنجی یہی ہے کہ انسان اپنے دل کو اتنا صاف
کرے کہ دوسرے دل اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ اسی حکمتِ عملی کی عظیم مثال ہمیں برصغیر
(ہندوستان) میں آنے والے اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کی زندگیوں میں ملتی
ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ، حضرت بہاؤالدین زکریاؒ،
حضرت لعل شہباز قلندرؒ، اور دیگر عظیم ہستیاں جب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں
تو انہوں نے براہِ راست وعظ و تلقین یا مناظروں سے دعوت نہیں دی، بلکہ پہلے
اپنے کردار، اخلاق، سخاوت، محبت، اور عوام سے بے لوث تعلقات کے ذریعے دلوں میں جگہ
بنائی۔ انہوں نے بھوکے کو کھانا دیا، بیمار کو دعا دی، مظلوم کے ساتھ کھڑے
ہوئے، اور امیر و غریب سب سے شفقت و مساوات کا برتاؤ کیا۔
یہی وہ مانوسیت تھی جس نے ہندوؤں، سکھوں، اور
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں کو نرم کیا اور انہیں سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ
کیسا دین ہے جس کے پیروکار صرف زبانی نہیں، عملی محبت دیتے ہیں۔ پھر جب ان صوفیاء
کرام نے اسلامی دعوت پیش کی تو وہ دلوں میں اُتر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ
برصغیر میں اسلام کسی تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق و انسیت کے ذریعے پھیلا۔
نصیحت
تبھی مؤثر ہوتی ہے جب شخصیت محبوب ہو
نصیحت وہی مؤثر ہوتی ہے جس کے پیچھے اخلاص، خیرخواہی، محبت اور مانوسیت ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات سنی جائے، اس پر غور ہو، اس سے فائدہ اٹھایا جائے، تو سب سے پہلے اپنی ذات کو قابلِ اعتماد بنائیں، اپنے اخلاق و معاملات کو سنواریں، لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوں، اُن سے محبت کریں، پھر اللہ تعالیٰ آپ کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں میں تاثیر پیدا فرما دے گا۔
تحریر: محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You