برستی رہتی ہیں ساون کے بادلوں کی طرح
حضور میری بھی آنکھیں میرے بڑوں کی طرح
لکھا تھا اسمِ محمد ﷺ نہ جب تلک میں نے
مری حیات تھی ردی کے کاغذوں کی طرح
فضائے نعت میں اڑتے ہوئے نہیں تھکتا
میرا قلم بھی ہے جبریل کے پروں کی طرح
میر ی خطاؤں کا کوئی سرا نہیں ملتا
حضور آپ کی رحمت کے سلسلوں کی طرح
میں صبح و شام تلاوت نہ کیوں کروں اس کی
مرے حضورؐ کا چہرہ ہے آیتوں کی طرح
درِ نبیؐ سے نہیں ہوتے ہم کبھی رخصت
جہاں بھی ہوں ہیں مدینے کے باسیوں کی طرح
مجھے ملا ہے حضوری کے رتجگوں کا گداز
کبھی رکھا نہیں آقاؐ نے فاصلوں کی طرح
قدم جنابِ پیمبرؐ کے چومتا اکثر
میَں، کاش ہوتا، احد تیرے پتھروں کی طرح
تلاش اُنؐ کی تھی، ہجرت کے راستے میں مجھے
لبوں پہ نعت تھی یثرب
کی بچّیوں کی طرح
حضورؐ، جشنِ ولادت پہ لینے آیا ہوں
کرم کی بھیک مدینے میں سائلوں کی طرح
اُدھر مواجھہِ اقدس میں حاضری کے بعد
ہوا ملی مجھے بچپن
کے دوستوں کی طرح
ہوائے شہرِ پیمبرؐ کے سرد جھونکوں میں
سکوں ملا مجھے ممتا کی لوریوں کی طرح
درِ حضورؐ سے رخصت کے بعد، پوری رات
خدا گواہ، گزاری ہے ہچکیوں کی طرح
حضور چشم ِ کرم کی بڑی ضرورت ہے
بکھر رہا ہوں میں شیشے کی کرچیوں کی طرح
پرو کے لایا ہوں اشکوں کے ہار میں آقا
ہر ایک اشک ہے شفاف آئینوں کی طرح
میں خوش نصیب ہوں باب بقیع کی جانب
بکھر رہاہوں گلابوں کی پتیوں کی طرح
کروڑ بار بھی مجھ کو عطا اگر ہو ریاضؔ
نثار جانیں کروں گا میں عاشقوں کی طرح
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You