Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

2/3/16

رواداری ، روشن خیالی اورمسلمان

رواداری ، روشن خیالی اورمسلمان

ہمارا قومی میڈیا روزانہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو روادار ہونے اوردوسروں کو برداشت کرنے اورروشن خیال ہونے کی تلقین کرتارہتاہے ۔اورمسلمانوں کے تعلق سے کسی بھی مسئلہ پر میڈیا کی تان اسی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر رواداری نہیں ہے۔وہ دوسروں اوردوسروں کے خیالات کو برداشت نہیں کرتے اورفوراً مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔جب کہ حقیقت کی نظر  سے دیکھاجائے تو مسلمانوں سے زیادہ رواداری کا ثبوت کسی قوم نے نہیں دیا ہے۔برادرانِ وطن جو خود کو روادار کہتے نہیں تھکتےاورتمام مذاہب حق ہیں کا نعرہ بلند کرکے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ روادارقوم ہونے کا دعوی کرنا کسی بھی موقع پر نہیں بھولتے اگر واقعات کی روشنی میں میں دیکھا جائے تو  وہ خود سب سے زیادہ غیر روادار نظر آتے ہیں۔


سبھی کو معلوم ہے کہ ماضی بعید میں انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کرکے کچھ طبقات سے انسان ہونے اورانسانوں کی طرح زندگی گزارنے کا حق چھین لیاگیاتھا۔اوران پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے گئے تھے۔

بعد میں بدھ مذہب کے ساتھ کیا سلوک کیاگیا وہ سبھی جانتے ہیں۔ بدھ مذہب کے پیرو کاروں پر ہندوستان میں جیناحرام کردیا گیا۔اور انہیں مجبواً ہندوستان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں پناہ لینی پڑی۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے خلاف بے شمار فسادات ہوئے ۔جن میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا ۔اوربے شمار جانی ومالی نقصان ہوا۔اور ان فسادات کے ملزمین قانون کی گرفت سے ہمیشہ ہی دور رہے۔اس کے بارے میں بجا طورپر کہا جاسکتاہے کہ یہ ایک طرح سے سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کی نسل کشی کی کوشش تھی۔ یہ تمام کارنامے اسی قوم کے افراد کے ہاتھوں انجام دئیے گئے ہیں جو خود کو روادار ، اعتدال پسند کہتی ہے۔

ابھی گجرات میں جس طرح مسلمانوں کا سرکاری سرپرستی میں قتل عام کیاگیا ۔اورفسادات کے ملزمین کو سرکار کی جانب سے اورگجرات کی اکثریت کی جانب سے بچانے کی کوششیں کی گئیں۔اورکی جارہی ہیں۔وہ سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان فسادات میں ایک اہم رول جینیوں کا بھی تھا جو اپنے آپ کو اہنساوادی اورکسی پر بھی ظلم نہ کرنے والا کہتے ہیں اوراسی لئے مچھلی گوشت اورانڈا وغیرہ نہیں کھاتے ہیں کہ ان جانداروں پر ظلم ہوتاہے ۔مگر ان کو مسلمانوں کو قتل کرنے میں کسی بھی ظلم کا احساس نہیں تھا۔

ہندو جنگجو تنظمیں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد،شیوسینا، ہندو سینا اورپتہ نہیں کتنی تنظمیں اور ان سب کو نظریاتی قوت فراہم کرنے والی ان کی ماں آرایس ایس وغیرہ پورے ملک میں مصروف عمل ہیں اورہر اس عمل کو جوان کے نظریہ کے خلاف ہو زبردستی روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ہم نے ایف ایم حسین کی پینٹگس کی نمائش رکتے دیکھی ہے۔ہم نے عامر خان کی فلم کو پورے گجرات میں نہ ریلیز ہوتے دیکھاہے۔عیسائیوں اورمسلمانوں کے خلاف ان تنظیموں کی دہشت گردی دیکھی ہے۔ ہم نے اسٹار نیوز چینل پر ایک معمولی سے واقعہ کو لے کرحملہ ہوتے دیکھاہے۔ اور آزادی کے بعد سے ہی یہ واقعات تواتر کے ساتھ جاری ہیں۔اورہر مہینے کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ پیش آجاتاہے جس سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ اصل میں روادار کون ہے اوررواداری کا ڈھونگ کس نے رچایاہے۔

مسلمانوں نے آج تک کسی بھی واقعہ میں شاذ ونادر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ زیادہ سے زیادہ کسی عالم نے کوئی بیان دیا ہے۔یا کسی نے کچھ بیان بازی  کی ہے یا کسی دار الافتاء سے کوئی فتویٰ شائع ہوا ہے۔یہ اظہار رائے کی آزادی کا استعمال ہے جو قانون نے اپنے شہریوں کو دیا ہے ۔لیکن قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا اورقانون کو کھلواڑ کی طرح استعمال کرنا انہی تنظیموں کا حق ہے جو تمام مذاہب کو سچ مانتے ہیں مگردوسرے مذاہب والوں کو پھلتا پھولتا دیکھنا نہیں چاہتے ۔تمام مذاہب کو سچ مانا جس مذہب کا عقیدہ ہو اسی مذہب کے ماننے والے اگر کسی کے تبدیلی مذہب پر فساد برپا کرتے ہیں اور دوسروں کی جان لینے کی کوشش کرتے ہیں کتنا عجیب اتفاق ہے۔اسلام تو بدنام ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کو تشدد کی تعلیم دیتاہے مگر انسانیت اور رواداری کا راگ الاپنے والے مذہب کے معتقد اورپیروکار یہ تشدد کہا ں سے سیکھ رہے ہیں۔اس کا بھی سرچشمہ معلوم کرنا چاہئے۔

یہ مسلمانوں کی رواداری کا کتنا بڑا ثبوت ہے کہ ہندوستان میں ہر ظلم انہوں نے جھیلا ۔لیکن آج تک انہوں نے بین الاقوامی فورم میں اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی کہ اس سے ہندوستان کی بدنامی ہوگی۔جب کہ ملیشا میں بسنے والے تاملوں نے حقوق کے نام پر دنیا بھر میں ملیشا کو بدنام کرنے کی مہم چلا رکھی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ قانون کے اوراق میں ہندوستان میں اقلیتوں کو بہت زیادہ حقوق دیے گئے ہیں۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کی پامالی میں بھی ہندوستان کا ایک شاندار ریکارڈ ہے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان دفاعی رویہ اپنانا چھوڑیں اوراقدام کریں۔اگر کوئی کشمیر کے واقعات کو لے کر اسلام کو دہشت گردی سے جوڑتاہے تو پھر ہمیں بھی یہ حق ہے کہ ہم آسام تریپورہ ،ناگالینڈ،نکسل ازم اور اس سے متعلق واقعات کو ہندو دہشت گردی کے خانے میں رکھیں۔اگر کوئی ""گڑیا""کے واقعات کو لے کر اسلامی شریعت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کرتاہے تو ملک کے طول وعرض میں بے شمار ایسے رونما ہونے والے واقعات جس میں ذات سے باہر شادی کرنے والوں کو قتل کیا گیا ہے کو لے کر ان کی رواداری کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔

ابھی بھی اونچی ذات کے ہندئوں نے نچلی ذات والوں کے حقوق کو خوشدلی سے قبول نہیں کیا ہے ۔آئے دن اخبارات کی سرخیاں ایسے واقعات بنتی رہتی ہیں۔ جہاں اونچی ذات والوں نے نچلی ذات والوں کو مندر میں آنے سے منع کردیاہو۔یا کسی نچلی ذات والے کے اونچی ذات والوں کے کنوئوں سے پانی پینے پر فساد برپا ہوگیاہو۔ اور اونچی ذات والوں کا کنواں اسی صورت میں پاک ہوا ہو جب کہ دلتوں کے خون سے گائوں رنگ گئی ہو۔ابھی کچھ دنوں پہلے راشٹریہ سہارا میں ایک خبر نظر سے گذری کہ امریکہ میں قیام پذیر ایک شخص نے اپنی حاملہ بیٹی اورداماد کو گھر میں جلا کر مارڈالا ۔ان معصوموں کا قصور صرف اتنا تھا کہ اس کی بیٹی نے ایک نچلی ذات کے لڑکے کے ساتھ شادی کرلی تھی ۔یہ واقعات اگرچہ انفرادی ہیں اوراس سے کوئی عمومی حکم لگانا صحیح نہیں ہے۔تاہم پھر بھی یہ واقعات اس جانب ضرور اشارہ کرتے ہیں کہ رواداری کا مفہہوم ان کے یہاں کیا ہے۔اوروہ اپنے لئے کس رواداری کے خواہاں ہیں اورمسلمانوں سے کیسی رواداری چاہتے ہیں۔

مسلمانوں کے دنیا بھر میں بدنام ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ علماء وقت کی زبان (انگلش )پر عبور نہیں رکھتے اورجن نام نہاد دانشوروں اورپروفیسروں نے اسلام کی ترجمانی کرنے کا خود ساختہ ٹھیکہ لے رکھا ہے وہ ہرمسئلہ جس سے اسلام یا اسلامی شریعت کا تعلق ہو کچھ اس طرح سے دفاعی رویہ اختیار کرتے ہیں جس سے اسلام کی صحیح تصویر پیش ہونے کے بجائے اسلام کی غلط تصویر دنیا کے سامنے پیش ہوتی ہے۔۔کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ""ٹائمس نائو "" چینل پر "وجے ترون" اورکوئی فاروقی صاحب سچر کمیٹی کو لے کر مباحثہ کررہے تھے ۔فاروقی صاحب شروع سے ہی دفاعی انداز اختیار کرچکے تھے اوروجے ترون بڑھ چڑھ کر بول رہاتھا۔پتہ نہیں یہ نام نہاد دانشور کس احساس جرم اوراحساس ندامت کا شکار ہیں اسلام اوراسلام سے متعلق کوئی بھی مسئلہ درپیش آتے ہی ان کی گردنیں کیوں جھک جاتی ہیں اوریہ احساس کمتری کا شکار کیوں ہوجاتے ہیں۔

آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامیات پر بہترین عبور رکھنے والے عالم حضرات انگلش زبان کی تحصیل پر توجہ دیں اور اسلام کو دنیا کے سامنے اسی شکل میں پیش کریں جیسا کہ وہ ہے نہ کہ نام نہاد دانشوروں کی طرح دانشوری کی خراد مشین پر اسلام کو چڑھاکر اوراسلام کو اپنی عقل کے مطابق کرکے دنیا کے سامنے پیش کریں۔


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive