Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/26/17

استقبال رمضان خطبہ ہادی اعظم نور مجسم ﷺ

’’حضرت سیّدنا سلمان فارسیؓ سے روایت ہے‘ فرماتے ہیں‘ رسولِ کریمﷺ نے شعبان المعظم کے آخری دن ہم سے خطاب فرمایا : اے لوگو! تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ مہینہ بڑی برکت والا ہے۔ اِس ماہ ِ(مبارک) میں ایک رات اَیسی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اِس ماہِ (مبارک) کے روزے اللہ نے فرض فرمائے ہیں اور اِس کی راتوں کا قیام (بصورت نمازِ تراویح) زائد عبادت ہے (جو رمضان المبارک میں ہی اَدا کی جاتی ہے) جو کوئی صاحبِ اِیمان اِس ماہ ِ(مبارک) میں رَبِ (ذوالجلال) کی رضا اور قرب حاصل کرنے کے لئے غیر فرض عبادت (یعنی سُنّت یا نفل) اَدا کرے گا وہ گویا اَیسے ہو گا جیسے اُس نے دوسرے مہینے میں ایک فرض اَد ا کیا اور جو اِس ماہِ (مبارک) میں ایک فرض اَد ا کر ے گا وہ گویا اَیسے ہے جیسے اُس نے دُوسرے مہینے میں سترّ فرض اَد اکئے۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے نیز صبر والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی ہے اور ارشادِ ربّ ذوالجلال والاکرام ہے ’’اور وہ (لوگ) جنہوں نے صبر کیا، اپنے ربّ کی رضا چاہنے کو اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دیئے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں چھپے اور ظاہر کچھ خرچ کیا۔ اور بُرائی کا بدلہ بھلائی کر کے ٹالتے ہیں انہیں کے لئے پچھلے گھر کا نفع ہے، بسنے کے باغ ہیں جس میں وہ داخل ہوں گے۔ اور جو ان کے باپ دادا اور بیوی اور اولاد میں لائق ہوں گے اور فرشتے ہر دروازے سے اُن پر یہ کہتے ہوئے آئیں گے سلامتی ہو تم پر تمہارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا خوب ہی ملا‘‘(سورۃ الرعد: 24)۔ صبر کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے یہ شان بیان کی ہے کہ جنت میں جس وقت داخل ہوں گے اللہ تعالیٰ کے فرشتے اُن پر سلام بھیجیں گے۔ یہ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ ماہِ (مبارک) ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اِضافہ کیا جاتا ہے۔ اِس مہینہ میں جو صاحبِ اِیمان کسی (اِیمان والے) کا روزہ اِفطار کرائے گا (نیّت ِثواب و رضائے اِلٰہی کے لئے) تو اُس کے لئے تین اَجر ہیں (1) اُس کے لئے اُس کے گناہوں کی بخشش ہو گی (2) اُس کی گردن جہنم کی آگ سے آزاد ہو گی اور (3) اُس کو روزہ دار کی طرح ثواب ملے گا بغیر اِس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی ہو۔ (حضرت سیّدنا سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں) ہم نے بارگاہِ رسالت مآبﷺ میں عرض کیا‘ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیک وسلم) ہم میں سے ہر ایک کو روزہ اِفطار کرانے کا سامان میسر نہیں (تو کیا غرباء اِس ثواب کو حاصل کر سکیں گے؟) تو (غریبوں کے ملجیٰ، یتیموں کے ماویٰ، بے کسوں کے والی) رسولِ کریمﷺ نے اِرشاد فرمایا: اللہ یہ ثواب اُس (غریب اِیمان والے کو) بھی عطا فرمائے گا جو دُودھ کے ایک گھونٹ سے، یا ایک کھجور سے یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ سے روزہ دار کا روزہ اِفطار کروائے گا۔ (حضور نبی کریمﷺ نے سلسلۂ نورانی خطاب کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا) اور جو اِیمان والا کسی بندہ مومن کو اِفطار کے بعد خوب پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا اللہ اُسے میرے حوضِ کوثرسے پانی پلائے گا اور اَیسا سیراب کرے گا کہ اُس کو کبھی پیاس نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہو جائے۔ (بعد ازیں کریم آقاﷺ نے اِرشاد فرمایا) یہ وہ ماہِ مبارک ہے کہ جس کے اَوّل حصّہ میں رَحمت ہے۔ درمیانی حصّہ میں مغفرت ہے اور آخری حصّہ میں آگ سے آزادی ہے اور جو صاحبِ اِیمان اِس مہینہ میں خادم یا ملازم کے کام یا اوقاتِ کار اور اوقاتِ مزدوری میں تخفیف کرے گا اللہ اُسے بخش دے گا اور اُسے دوزخ کی آگ سے آزادی عطا فرمائے گا۔‘‘ خطبۂ استقبالِ رمضان المبارک میں ماہِ رمضان المبارک کی برکتوں کی پیشگی کی اِطلاع دی جا رہی ہے۔ اِس اِطلاع میں ماہِ رمضان المبارک کی عظمت اور فضیلت کا اِظہار ہے۔

سبحان اللہ! کیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ ہیں جن کے خطیب اِمام الانبیائﷺ ہیں کہ جب خطبہ اِرشاد فرماتے تو اُن کی زبان مبارک سے جو کلام نکلتا تھا وہ قرآنِ مجید فرقانِ حمید اور اَحادیث ِمبارکہ کے اَنوار و تجلیات سے صحابہ کرامؓ کے سینوں کو منور فرماتا تھا۔

روزے گنتی کے دِنوں میں آتے ہیں اور گنتے گنتے گزر جاتے ہیں۔ رَبّ کائنات نے محدود دنوں کے باوجود اہل ایمان کے لئے آسانیوں کی بشارت عطا فرمائی کہ اگر کوئی بیمار ہو یا مسافر ہو وہ کسی روزہ کے رہ جانے کی صورت میں بعد کے ایّام میں گنتی پوری کر لے کیونکہ ربّ ذوالجلال والاکرام اپنے بندوں کو آسانیاں عطا فرماتا ہے، دشواریاں نہیں چاہتا۔

روزہ کی غرض و غایت اور منشاء اپنی خواہشات کو قابو میں رکھنا‘ جذبات کے طوفان سے اپنے آپ کو بچا لینا ‘ حرام سے بچنا‘ نفس کا زور توڑنا‘ دِل میں صفائی پیدا کرنا اور مساکین و فقراء کی موافقت کرنا ہے۔ اِن اوصاف کا نتیجہ‘ حصولِ تقویٰ ہے۔ اِسی لئے ربِّ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’اے اِیمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے تھے تاکہ تم متقی ہو جائو۔‘‘ یعنی روزے کا ثمرہ یہ ہے کہ تمہیں ’’تقویٰ‘‘ حاصل ہو۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں، رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: جب رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جِن قید کر دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں کہ اُن میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جن میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی چاہنے والے آ‘ اور برُائی چاہنے والے باز آ اور اللہ (تعالیٰ) کی طرف سے لوگ آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں اور یہ ہر رات ہوتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ، مرآۃ، ترمذی، مستدرک حاکم، درمنثور، السنن الکبریٰ للبیہقی، حلیۃ الاولیائ، کنزالعمال)


Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive