Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

10/18/16

وجود باری تعالی || نظریہ ارتقاء اور وجودِ باری تعالی || کائنات کے عجائبات || What a Universe



نظریہ ارتقاء کو ماننے والے بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا نظریہ پیش کر کے زمینی مخلوقات میں اللہ تعالی کی نشانیوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اس بات کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ زمین سے لاکھوں کلومیٹر دور سورج میں وہ تمام خوبیاں کیسے پیدا ہو گئیں جو زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔مثلًا سورج کی کشش سمندر میں مدوجزد کا سبب بنتی ہے جس سے سمندری پانی متحرک رہتا ہے اور اس میں وہ بو اور سرانڈ پیدا نہیں ہوتی جو کھڑے پانی میں پیدا ہو جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو سمندری پانی کی بو پوری زمین کو متعفن بنا دیتی ۔ پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کا عمل سورج کی روشنی کے بغیر ممکن نہیں۔دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ضیائی تالیف کا نتیجہ ہے۔ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ ریز کا ایک حصہ زمین کے درجہ حرارت کو مناسب سطح پر رکھتا ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کے سپیکٹرم کے اس حصے کے لیے حساس ہے جو سورج سے آتی ہے۔سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین کی طرف پلٹتی ہے اور رات کے وقت اسے مکمل اندھیرے سے بچاتی ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ(تقریبًا 150 ملین کلو میٹر) اتنا متناسب ہے کہ اگر تھوڑا زیادہ ہو تا تو زمین ٹھٹھر کر رہ جاتی اور دریا برف بن جاتے اور اگر کم ہوتا تو قطب شمالی اور جنوبی پر موجود برف پگھل جاتی اور ساری زمین زیرِ آب آ جاتی۔ فَبِاَيِّ آلَاء رَبِّكَ تَتَمَارَى (سورۃ النجم۔55)''پس(اے انسان) تُو اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔''سورج جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے اس کا نام مِلکی وے (Milky Way) ہے ، ملکی وے میں 400 بلین ستاروں کے موجود ہونے کا اندازہ لگا یا گیا ہے یہ ستارے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں کہ اسے ناپنےکے لیے روایتی پیمانے کم پڑ جاتے ہیں۔ ان کی پیمائش کے لیے ہیئت دانوں نے نوری سال (Light Year) کی اصطلاح وضع کی ہے۔نوری سال کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کر لیجیے کہ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ سورج سے زمین تک 150 ملین کلو میٹر فاصلہ طے کرنے میں اسے تقریبًا آٹھ منٹ لگتے ہیں۔اگر روشنی اسی رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے تو اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے۔ مِلکی وے کا قطر(Diameter) ایک لاکھ نوری سال ہے۔ جبکہ کہکشاں کے مرکز سےسورج تک کا فاصلہ 26٫000 نوری سال ہے۔ اس میں موجود ستاروں میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے ہیں۔ مثلاً ستارہ Antares سورج سے 3500 گنا زیادہ روشن ہے اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 400 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelgeuse سورج سے 17000 گنا زیادہ روشن اور ہم سے 310نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat, Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hereules ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super giants کہتے ہیں۔ ان سے اٹھنے والے کروڑہا کلومیٹر بلند شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کے مظہرہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے سارے نظام شمسی میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آجائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آجائے تو ہماری زمین اور مریخ تک کی جگہ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آجائے تو سیارہ Uranus اس کے محیط میں آجائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں (Andromeda Galaxy) ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ اس میں 300 سے 400 بلین ستاروں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔جبکہ اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ سب ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں اور خلا میں بھی چل رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے ۔ ہیئت دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں موجود کہکشاؤں کی تعداد 125 بلین کے قریب ہے۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل یقین رفتار سے سفر کرنے کا حیرت انگیز منظر دوربینوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تب بھی یہی نظارہ ہوگا کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے کتنی سچی بات فرمائی ہے:وَالسَّمَاء بَنَيْنَاھَا بِايْدٍ وَاِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات۔47)''آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِسےوسیع کرتے جا رہے ہیں۔'' (الذاریات۔47)یہ سب کچھ دیکھ کر ایک سلیم الفطرت آدمی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کائنات کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی، اس میں ستاروں اور سیاروں کے مدار اتنی درستگی سے بنائے گئے ہیں کہ اگر ان میں چند ڈگری کا بھی فرق آ جائے تو کائنات ہل کر رہ جائے۔ ارب ہا ستارے کائنات میں گردش کر رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔مقرر شدہ راستے سے ہٹتے نہیں۔اگر Antares ستارے کے حجم کے برابر کوئی ستارہ ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزر جائے تو اس کی کشش کی وجہ سے سارا نظام شمسی اس میں جا گرے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کوئی تو ہے جو لاکھوں اربوں سال سے زمین کی حفاظت کرتا چلا آتا ہے اور اسے اس طرح کی خلائی آفتوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ کائنات میں پایا جانے والا توازن، اور اس میں پایا جانے والا نظم کسی خالق کے وجود کی خبردے رہا ہے۔ اَفِي اللّہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ اِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى (سورۃ ابراھیم۔آیت 10)'' کیا اللّٰہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔''علاوہ ازیں اگر اسے چلانے والےایک سے زیادہ ہوتے تو یہاں جنگ و جدل برپا رہتا مگر یہاں کا امن، سکون اور ہر ایک کی اطاعت و فرمانبرداری شہادت دیتی ہے کہ ان کا خالق و مدبر ایک ہی ہے۔لَوْ كَانَ فِيھِمَا آلِھۃٌ اِلَّا اللَّہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (سورۃ الانبیاء۔22)''اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا بھی الٰہ ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔''اس میں ان لوگوں کے لیے بھی سوچنے کا سامان ہے جن کے خیال میں اللہ تعالٰی نے زمین پر کچھ لوگوں کو اپنا نائب یا حاجت روا بنا کر حاجتیں پوری کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ میرے بھائی! جو اللہ اتنی بڑی کائنات بنا سکتا ہے وہ بلا شرکتِ غیرے اسے چلا بھی سکتا ہے اور بلاشبہ اکیلے ہی چلاتا ہے۔

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive