Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

1/16/16

Slavery and its History by Uzma Siddiqui



تاریخ بتاتی ہے کہ کولمبس نے امریکن انڈینز کے علاقوں اور جزیروں تک  پہنچنے کے بعد مقامی آبادی کا اس طرح قتل عام کیا کہ اکیس سال کے  اندرہسپانیولا ایک بھوت جزیرہ بن چکا تھا۔ گھنے درختوں کے خوبصورت جزائر  تباہ ہوچکے تھے۔ ان میں رواں دواں سادہ اور فطری زندگی خاموش ہوچکی تھی  اور1900ء تک وہ لوگ جو کہ اصل امریکی باشندوں کی نمائندگی کرسکتے تھے ان کی  آبادی گھٹ کر ایک تہائی کا ایک فیصد رہ گئی تھی یعنی چار سو سال تک  امریکن انڈینز کی نسل کشی ہوتی رہی۔
سامراجیت، ظلم و استبداد، انسانوں  کی غلامی کی تاریخ جس نے نسلوں اور قوموں کی بربادی کے المناک باب رقم کئے  اسے ہم کولمبس کے دور سے بہت پیچھے پلٹ کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ صدیوں پیچھے  مڑ کر دیکھیں تو انسانوں کو غلام بنانے کا رواج اتنا ہی قدیم نظر آئے گا  جتنی کہ انسانی تہذیب اور معاشرت کی تاریخ قدیم ہے۔ زمانہ قدیم کی تہذیبوں  اور معاشرتوں میں جنگوں کے بعد مفتوحہ اقوام اور باشندوں کو غلام بنایا  جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر قدیم یونان اور اور قدیم روم کے زمانوں میں انسانی  غلامی اور تجارت عروج پر تھی۔ خاص طور پر یونان کے شہر ایتھنز اور اسپاٹا  کی آدھی آبادی غلاموں پر مشتمل تھی۔ قدیم روم میں بھی انسانوں کو غلام  بنانا اور ان پر ظلم و تشدد روا رکھنا عام بات تھی۔ پانچویں صدی عیسویں میں  جب آدھی سے زیادہ سلطنتِ روما کا انہدام ہوا تب طاقت کا مرکزKnightsاور  کیتھلک چرچ تھے اور ہاری اور کسان ان کے غلام ہوا کرتے تھے ان ہاری اور  کسانوں کے آقا اور مالک یہ نائٹس ہوا کرتے تھے جو ان کی مرضی کے بغیر کہیں  نہیں جا سکتے تھے۔ اسی دوران مشرق میں اسلام ایک نئی تہذیب کی شکل میں  ابھر رہا تھا۔ عربوں کے اسلامی معاشرے میں بھی غلامی کارواج قائم رہا اور  اہل روم کی طرح عربوں کی معاشرتی زندگی میں غلامی کارواج موجودرہا۔ عرب  مشرقِ وسطیٰ کی انسانی منڈیوں میں لاکھوں صحرائی افریقی، ایشیائی اور یورپی  باشندوں کو لاکر فروخت کیا کرتے تھے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام  نے ایشیا، افریقہ اور امریکہ کی نئی دنیائوں کو بحری راستوں کے ذریعہ  دریافت اور تسخیر کرنا شروع کیا تو انسانی تاریخ میں غلامی کے ایک نئے دور  کا آغاز ہوا۔ 1650ء تک ڈچ، ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی اور برطانوی پوری  دنیا میں اپنی نو آبادیات قائم کرچکے تھے اور نئے دریافت شدہ علاقوں  خصوصاََ امریکہ میں تمباکو اور گنے کی کاشت اور کان کنی کے لئے غلاموں کو  استعمال کیا جاتا تھا۔ جنوبی امریکہ سے غلام بنا کر لائے جانے والوں سے  فصلوں کی کٹائی اور کان کنی کا کام لیا جاتا۔ افریقہ سے درآمد کئے جانے  والے غلاموں کی نسلیں تشدد، بد ترین سلوک اور بیماریوں کا شکار ہو کر ختم  ہو تی گئیں۔ پندرھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک تقریباََ نو ملین افریقی  باشندوں کو غلام بنا کر بحری جہازوں میں بھر کر لاطینی امریکہ لایا گیا ۔  انہیں انتہائی غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا۔ اٹھارویں صدی کے اختتامی  دور میں غلامی جنوبی امریکہ میں تقریباََ ختم ہونا شروع ہوگئی تھی کیونکہ  صنعتی دور کا آغاز ہوچکا تھا۔ انیسویں صدی انگلینڈ میں ٹیکسٹائل ملوں کے  عروج کا زمانہ تھا اس لئے اچھی قسم کی کپاس کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا  اور اس نئی اور اچھی قسم کی کپاس کو چننے کے لئے غلاموں کی ضرورت تھی لیکن  اس دوران غلامی کے خاتمہ کی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔ امریکہ میں کئی  دھائیوں سے یہ تحریک زور پکڑ رہی تھی اور انسانی اقدار کا احترام کرنے والے  امریکیوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا چکا تھا کہ کیا اخلاقی اور انسانی  اقدار کی رو سے انسانوں کو غلام بنانا جائز ہے ؟ 1776ء میں جب امریکی  انقلاب کے اعلانِ آزادی کی دستاویز تیار ہو رہی تھیں تو جان آرمز، بینجمن  فرانکلین، تھامسن جیفرسن نے غلامی کے خلاف تحریک کو بھی آزادی کی تحریک  کا حصہ بنایا۔ امریکہ کی سول وار کے بعد بھی دنیا بھر میں غلامی کو ختم  کرنے کی تحریک جاری رہی۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں انیسویں صدی کے اختتام تک  برازیل اورسپین میں انسانوں کی روایتی غلامی کا تقریباََخاتمہ ہو چکا تھا۔  امریکہ کی سول وار کے دوران امریکی صدر ابراہم لنکن نے بھی رنگ و نسل کی  بنیاد پر انسانوں میں تفریق اور غلامی کو یکسر ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا  لیکن دیکھا جائے تو آج بھی تیسری دنیا کے غریب ممالک میں انسانوں کی  تجارت کا سلسلہ جاری ہے۔ غلامی کی اس غیر انسانی تجارت میں زیادہ تر بچوں  اور عورتوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ یہ جنسی تجارت اور جسمانی مشقت دونوں کے  لئے استعمال ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں نیپال، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش  اور برما سے بچے اورعورتیں اغوا کر کے یا انہیں لالچ اور ملازمت کا جھانسہ  دے کر بڑے شہروں اور خلیجی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہزاروں  عورتیں اور بچے بنکاک میں بھی بدنامِ زمانہ جنسی بازاروں میں بیچ دیئے  جاتے ہیں۔ ایشیائی ممالک کے اکثر نادار اور غریب والدین خود اپنے بچوں کو  بیچ دیتے ہیں۔ انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے مقامی اخبارات  میں نینی، بے بی سٹر، ماڈل اور ایکٹریس کی ضرورت کا اشتہار دے کر انہیں  جسم فروشی کے گھنائونے کاروبار میں ملوث کردیتے ہیں۔ انکار کرنے پر ان بچوں  اور عورتوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے۔ دھمکایا اور ڈرایا جاتا  ہے اور اس طرح انہیں وہ کچھ کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے جو وہ نہیں چاہتے۔  افریقہ میں بہت سے لوگوں کو جسمانی مشقت اور مزدوری اور بیگار کے لئے بیچ  دیا جاتا ہے۔ متعد افراد کو آج بھی کپاس چننے اور زراعت کے سخت کاموں کی  بیگار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بار جو اس قسم کے کاروبار کرنے والے  گروہ کے ہتھے چڑھ جائے وہ اپنی قسمت اور زندگی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔  ان کے پاسپورٹ اس قسم کے گروہ کے لوگ اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ جسمانی اور  ذہنی اذیت اور ذلت کے ساتھ ان لوگوں کو قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ متعدد  لوگوں کے انٹرویو جو انہوں نے کسی نہ کسی طرح آزاد ہونے کے بعد مختلف  آرگنائزیشن اور اخبار نویسوں کو دیئے انہیں پڑھنے کے بعد رونگٹے کھڑے  کردینے والے حقائق سے آگاہی ہوتی ہے ۔ یہ حقائق بھی سامنے آچکے ہیں کہ یہ  گروہ بہت منظم ہیں اور باقاعدہ ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔
داعش  جیسی دہشت گرد تنظیم بھی لڑکیوں کے اغوا اور انہیں غلام بنا کر بیچ دینے  کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے  پورے کے پورے خاندان غلاموں کی طرح استعمال کئے جاتے ہیں اور غربت اور  قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ان خاندانوں کی نسلیں اس غلامی کی قیدسے کبھی  آزاد نہیں ہو پاتیں۔ غریب ہاریوں اور مزارعوں اور کمیوں کی حالت بھی  غلاموں جیسی ہے جن کی نسلیں جاگیر داروں اور وڈیروں کی غلامی میں رہتی ہیں۔  انہیں بے اجرت کام یعنی بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ جاگیردار اور  وڈیرے ان کے لئے خداوند کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے سامنے نظر اٹھا کر بات  کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ان جاگیر داروں کی اپنی ذاتی جیلیں بھی ہوتی  ہیں۔ مزارع یا کمی کی ذرا سی غلطی یا حکم عدولی پر اسے بیڑیاں پہنا کر  زندگی بھر کے لئے ان جیلوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔ غلامی ہو یا نسلی اور مذہبی  بنیادوں پر نسل کشی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انسانوں کی تجارت اکیسویں  صدی کے ترقی یافتہ مہذب دور میں بھی ایک اہم اشو ہے اور اکیسویں صدی کے  انسانوں کی ایک بڑی تعداد ان ابتلائوں میں آج بھی مبتلا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ کولمبس نے امریکن انڈینز کے علاقوں اور جزیروں تک پہنچنے کے بعد مقامی آبادی کا اس طرح قتل عام کیا کہ اکیس سال کے اندرہسپانیولا ایک بھوت جزیرہ بن چکا تھا۔ گھنے درختوں کے خوبصورت جزائر تباہ ہوچکے تھے۔ ان میں رواں دواں سادہ اور فطری زندگی خاموش ہوچکی تھی اور1900ء تک وہ لوگ جو کہ اصل امریکی باشندوں کی نمائندگی کرسکتے تھے ان کی آبادی گھٹ کر ایک تہائی کا ایک فیصد رہ گئی تھی یعنی چار سو سال تک امریکن انڈینز کی نسل کشی ہوتی رہی۔
سامراجیت، ظلم و استبداد، انسانوں کی غلامی کی تاریخ جس نے نسلوں اور قوموں کی بربادی کے المناک باب رقم کئے اسے ہم کولمبس کے دور سے بہت پیچھے پلٹ کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ صدیوں پیچھے مڑ کر دیکھیں تو انسانوں کو غلام بنانے کا رواج اتنا ہی قدیم نظر آئے گا جتنی کہ انسانی تہذیب اور معاشرت کی تاریخ قدیم ہے۔ زمانہ قدیم کی تہذیبوں اور معاشرتوں میں جنگوں کے بعد مفتوحہ اقوام اور باشندوں کو غلام بنایا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر قدیم یونان اور اور قدیم روم کے زمانوں میں انسانی غلامی اور تجارت عروج پر تھی۔ خاص طور پر یونان کے شہر ایتھنز اور اسپاٹا کی آدھی آبادی غلاموں پر مشتمل تھی۔ قدیم روم میں بھی انسانوں کو غلام بنانا اور ان پر ظلم و تشدد روا رکھنا عام بات تھی۔ پانچویں صدی عیسویں میں جب آدھی سے زیادہ سلطنتِ روما کا انہدام ہوا تب طاقت کا مرکزKnightsاور کیتھلک چرچ تھے اور ہاری اور کسان ان کے غلام ہوا کرتے تھے ان ہاری اور کسانوں کے آقا اور مالک یہ نائٹس ہوا کرتے تھے جو ان کی مرضی کے بغیر کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ اسی دوران مشرق میں اسلام ایک نئی تہذیب کی شکل میں ابھر رہا تھا۔ عربوں کے اسلامی معاشرے میں بھی غلامی کارواج قائم رہا اور اہل روم کی طرح عربوں کی معاشرتی زندگی میں غلامی کارواج موجودرہا۔ عرب مشرقِ وسطیٰ کی انسانی منڈیوں میں لاکھوں صحرائی افریقی، ایشیائی اور یورپی باشندوں کو لاکر فروخت کیا کرتے تھے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں یورپی اقوام نے ایشیا، افریقہ اور امریکہ کی نئی دنیائوں کو بحری راستوں کے ذریعہ دریافت اور تسخیر کرنا شروع کیا تو انسانی تاریخ میں غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ 1650ء تک ڈچ، ہسپانوی، پرتگالی، فرانسیسی اور برطانوی پوری دنیا میں اپنی نو آبادیات قائم کرچکے تھے اور نئے دریافت شدہ علاقوں خصوصاََ امریکہ میں تمباکو اور گنے کی کاشت اور کان کنی کے لئے غلاموں کو استعمال کیا جاتا تھا۔ جنوبی امریکہ سے غلام بنا کر لائے جانے والوں سے فصلوں کی کٹائی اور کان کنی کا کام لیا جاتا۔ افریقہ سے درآمد کئے جانے والے غلاموں کی نسلیں تشدد، بد ترین سلوک اور بیماریوں کا شکار ہو کر ختم ہو تی گئیں۔ پندرھویں صدی سے اٹھارویں صدی تک تقریباََ نو ملین افریقی باشندوں کو غلام بنا کر بحری جہازوں میں بھر کر لاطینی امریکہ لایا گیا ۔ انہیں انتہائی غیر انسانی حالات میں رکھا جاتا۔ اٹھارویں صدی کے اختتامی دور میں غلامی جنوبی امریکہ میں تقریباََ ختم ہونا شروع ہوگئی تھی کیونکہ صنعتی دور کا آغاز ہوچکا تھا۔ انیسویں صدی انگلینڈ میں ٹیکسٹائل ملوں کے عروج کا زمانہ تھا اس لئے اچھی قسم کی کپاس کی طلب میں اضافہ ہو رہا تھا اور اس نئی اور اچھی قسم کی کپاس کو چننے کے لئے غلاموں کی ضرورت تھی لیکن اس دوران غلامی کے خاتمہ کی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا۔ امریکہ میں کئی دھائیوں سے یہ تحریک زور پکڑ رہی تھی اور انسانی اقدار کا احترام کرنے والے امریکیوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جا چکا تھا کہ کیا اخلاقی اور انسانی اقدار کی رو سے انسانوں کو غلام بنانا جائز ہے ؟ 1776ء میں جب امریکی انقلاب کے اعلانِ آزادی کی دستاویز تیار ہو رہی تھیں تو جان آرمز، بینجمن فرانکلین، تھامسن جیفرسن نے غلامی کے خلاف تحریک کو بھی آزادی کی تحریک کا حصہ بنایا۔ امریکہ کی سول وار کے بعد بھی دنیا بھر میں غلامی کو ختم کرنے کی تحریک جاری رہی۔ اسی تحریک کے نتیجہ میں انیسویں صدی کے اختتام تک برازیل اورسپین میں انسانوں کی روایتی غلامی کا تقریباََخاتمہ ہو چکا تھا۔ امریکہ کی سول وار کے دوران امریکی صدر ابراہم لنکن نے بھی رنگ و نسل کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق اور غلامی کو یکسر ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا لیکن دیکھا جائے تو آج بھی تیسری دنیا کے غریب ممالک میں انسانوں کی تجارت کا سلسلہ جاری ہے۔ غلامی کی اس غیر انسانی تجارت میں زیادہ تر بچوں اور عورتوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ یہ جنسی تجارت اور جسمانی مشقت دونوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں نیپال، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما سے بچے اورعورتیں اغوا کر کے یا انہیں لالچ اور ملازمت کا جھانسہ دے کر بڑے شہروں اور خلیجی ریاستوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ہزاروں عورتیں اور بچے بنکاک میں بھی بدنامِ زمانہ جنسی بازاروں میں بیچ دیئے جاتے ہیں۔ ایشیائی ممالک کے اکثر نادار اور غریب والدین خود اپنے بچوں کو بیچ دیتے ہیں۔ انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کرنے والے مقامی اخبارات میں نینی، بے بی سٹر، ماڈل اور ایکٹریس کی ضرورت کا اشتہار دے کر انہیں جسم فروشی کے گھنائونے کاروبار میں ملوث کردیتے ہیں۔ انکار کرنے پر ان بچوں اور عورتوں پر جسمانی اور ذہنی تشدد کیا جاتا ہے۔ دھمکایا اور ڈرایا جاتا ہے اور اس طرح انہیں وہ کچھ کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے جو وہ نہیں چاہتے۔ افریقہ میں بہت سے لوگوں کو جسمانی مشقت اور مزدوری اور بیگار کے لئے بیچ دیا جاتا ہے۔ متعد افراد کو آج بھی کپاس چننے اور زراعت کے سخت کاموں کی بیگار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک بار جو اس قسم کے کاروبار کرنے والے گروہ کے ہتھے چڑھ جائے وہ اپنی قسمت اور زندگی پر کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ ان کے پاسپورٹ اس قسم کے گروہ کے لوگ اپنے قبضے میں رکھتے ہیں۔ جسمانی اور ذہنی اذیت اور ذلت کے ساتھ ان لوگوں کو قید کر کے رکھا جاتا ہے۔ متعدد لوگوں کے انٹرویو جو انہوں نے کسی نہ کسی طرح آزاد ہونے کے بعد مختلف آرگنائزیشن اور اخبار نویسوں کو دیئے انہیں پڑھنے کے بعد رونگٹے کھڑے کردینے والے حقائق سے آگاہی ہوتی ہے ۔ یہ حقائق بھی سامنے آچکے ہیں کہ یہ گروہ بہت منظم ہیں اور باقاعدہ ایک نیٹ ورک کے طور پر کام کرتے ہیں۔
داعش جیسی دہشت گرد تنظیم بھی لڑکیوں کے اغوا اور انہیں غلام بنا کر بیچ دینے کی کاروائیوں میں ملوث ہے۔ پاکستان میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے پورے کے پورے خاندان غلاموں کی طرح استعمال کئے جاتے ہیں اور غربت اور قرضوں کے جال میں پھنسے ہوئے ان خاندانوں کی نسلیں اس غلامی کی قیدسے کبھی آزاد نہیں ہو پاتیں۔ غریب ہاریوں اور مزارعوں اور کمیوں کی حالت بھی غلاموں جیسی ہے جن کی نسلیں جاگیر داروں اور وڈیروں کی غلامی میں رہتی ہیں۔ انہیں بے اجرت کام یعنی بیگار پر مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ جاگیردار اور وڈیرے ان کے لئے خداوند کا درجہ رکھتے ہیں اور ان کے سامنے نظر اٹھا کر بات کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ان جاگیر داروں کی اپنی ذاتی جیلیں بھی ہوتی ہیں۔ مزارع یا کمی کی ذرا سی غلطی یا حکم عدولی پر اسے بیڑیاں پہنا کر زندگی بھر کے لئے ان جیلوں میں ڈالا جاسکتا ہے۔ غلامی ہو یا نسلی اور مذہبی بنیادوں پر نسل کشی، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انسانوں کی تجارت اکیسویں صدی کے ترقی یافتہ مہذب دور میں بھی ایک اہم اشو ہے اور اکیسویں صدی کے انسانوں کی ایک بڑی تعداد ان ابتلائوں میں آج بھی مبتلا ہے۔ - See more at: http://search.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=252226#sthash.9n7hcn9K.dpuf
Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive